دیوالیہ پن کا شکار سری لنکا کیا سنبھل پائے گا ؟

ظہیر احمد

1948 میں برطانیہ سے آزاد ہونے والے سری لنکا میں معاشی بحران کم ہونے میں نہیں آرہا ۔ حکومت کے خلاف عوامی مظاہروں میں شدت آتی جارہی ہے ۔ معاشی کے بعد بڑھتے ہوئے سیاسی بحران سے نکلنے کے لیے صدر راجاپا کسے نے اپنی کابینہ کو برطرف کردیا تھا اور اپوزیشن کو دعوت دی تھی کہ وہ نئی حکومت کی تشکیل میں مدد کرے لیکن اپوزیشن جماعتوں نے نے مشکل کی اس گھڑی میں کوئی بھی مدد فراہم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ جس کے بعد راجا پاکسے نےاپنی پارٹی کے متعدد ارکان کو کئی عہدوں پر دوبارہ تعینات کردیا ہے ۔

کیا سری لنکن بحران کاذمہ دار امریکا یا چین ہے ؟
سری لنکا میں معاشی بحران کے حوالے سے کئی تھیوریز سامنے آرہی ہیں ۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک سے گمان کیا جارہا ہے کہ راجا پاکسے حکومت کے خلاف معاشی بحران سری لنکن حکومت کے یوکرین حملے کے دوران روس کی حمایت کے باعث شروع ہوا ہے اور امریکا راجا پاکسے کی حکومت ختم کرانا چاہتا ہے ۔ پاکستان میں کئی حلقے سری لنکا کے بحران کو پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے جوڑ رہے ہیں ۔ دوسری طرف مغرب سے یہ تھیوری بھی سامنے لائی جارہی ہے کہ چین نے قرضوں سے جکڑنے کا جو سلسلہ دنیا بھر میں ون بیلٹ ون روڈ کے نام سے شروع کیا ہے یہ اس کا نتیجہ ہے ۔ سری لنکا ان ممالک میں ہے جہاں چینی قرضے لے کر میگا پراجیکٹس مکمل کیے گئے ہیں ۔ مغربی میڈیا پاکستان کو بھی خبردار کرتا آرہا ہے کہ سی پیک کے قرضے سری لنکا کی طرح دیوالیہ کردیں گے ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا نہ چین ، سری لنکا کا معاشی بحران حکومت کے اقتدار کے آنے کے بعد ایک مقبول سیاسی فیصلے سے جڑا ہے ۔ جب راجا پاکسے کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی ٹیکس آدھے کردیے تھے اور اس کے لیے اسٹیٹ بینک سے مشاورت کرنا بھی گوارہ نہیں کیا تھا۔ جواز یہ پیش کیا گیا کہ تامل بغاوت کچلنے کے بعد بھی جب ٹیکس آدھے کیے گئے تھے تو اس سے ریونیو میں اضافہ ہوا تھا۔ لیکن اس بار یہ سیاسی فیصلہ معاشی موت ثابت ہوا۔

روس یوکرین حملہ آخری کیل ثابت ہوا
ماہرین کے نزدیک اس کی بڑی وجہ یہ رہی کہ ٹیکسوں میں پچاس فیصد کمی کے فیصلے کے بعد دنیا کو کورونا وبا نے جکڑ لیا ۔ دوسال تک دنیا کے بند رہنے سے سیاحت سے چلنے والی سری لنکن معیشت دم توڑ گئی ۔کوروناوبا کی شدت میں کمی آئی تو روس نے یوکرین پر حملہ کردیا۔ جس سے سیاحت کو دوبارہ سنبھالا نہ مل سکا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سری لنکا میں سیاحوں کی بڑی تعداد روس اور یوکرین سے آتی تھی ۔ایک طرف جنگ زدہ یوکرین اور روس سے سیاح نہیں آرہے ، دوسری جانب عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں ۔ جس نے سری لنکا کو معاشی بحران میں دھکیل دیا ۔مجبور ہوکر سری لنکا نے51 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے ادا کرنے تھے اس کی ادائیگی سے فی الوقت انکار کردیا اور قسطوں اور سود کی ادائیگی بھی روک دی ہے ۔

سری لنکا میں مہنگائی 30 فیصد سے زائد بڑھ گئی

سری لنکا میں اس وقت مہنگائی عروج پر ہے ۔ کھانے پینے کی اشیا کے دام 30 فیصد سے بھی زائد بڑھ چکے ہیں ۔ پٹرول نہ ملنے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ اور اس سے جڑا کاروبار بند ہوچکا ہے ۔ ایندھن کی کمی کے باعث بجلی کی فراہمی چند گھنٹے سے زیادہ نہیں رہی ۔ادویات کی قلت نے بھی عوام کے غم وغصے کو نئی بلندی پر پہنچا دیا ہے ۔
اس وقت معاشی صورتحال یہ ہے کہ سری لنکا میں اسٹیٹ بینک کے ریزرو ایک ارب ڈالر سے بھی نیچے آچکے ہیں ۔ پٹرول درآمد کرنے کے لیے بھی اس کے پاس رقم نہیں ۔ پہلے مرحلے میں بھارت سے پچاس کروڑ ڈالر لیے اور مزید ایک ارب ڈالر کے قرضے کے لیے بات چیت چل رہی ہے ۔ سری لنکا کو ڈیڑھ ارب ڈالر قرضے کے لیے چین نے بھی فریم ورک تیار کیا ہے جبکہ سری لنکا نے پاکستان سے بھی معاشی تعاون مانگا ہے ۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بھی معاشی پیکج کے لیے لائحہ عمل تشکیل دیا جارہا ہے ۔

راجا پاکسے خاندان کو ہی سیاست سے بیدخل کیا جائے
اپریل کے اوائل میں بڑے پیمانے پرسری لنکا میں مظاہروں کا آغاز ہوا جب لوگوں نے صدر راجا پاکسے سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا، اور اس مطالبے میں شدت آتی چلی گئی کہ صرف استعفے نہیں راجا پاکسے خاندان ہی سیاست سے الگ ہوجائے ۔ عوامی مظاہروں اور اپوزیشن جماعتوں کے تعاون سے انکار کے باوجود راجا پاکسے کی جانب سے نئی کابینہ تشکیل دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مظاہرین کے مطالبات کے سامنے نہیں جھکیں گے اور معاشی بحران سے نکلنے کے لیے آخری حد تک جائیں گے ۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More