تہران (پاک ترک نیوز)
ترکیہ کے صدررجب طیب اردوان نے کہا ہےکہ ہم روس اورایران سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ترکیہ کی حمایت کریں گے۔وہ کئی ہفتے قبل خبردارکرچکے ہیں کہ انقرہ جلد ہی شام میں کردملیشیا کے خلاف ایک نئی فوجی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔
وہ گذشتہ روزیہاںآستانہ فارمیٹ کے سربراہی اجلاس میں گفتگو کر رہے تھے۔ جس میں انکے علاوہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور میزبان ملک ایران کے صدرابراہیم رئیسی نے شرکت کی۔ انھوں نے کہا کہ کرد وائی پی جی ملیشیا جہاں ایک جانب ترکی میں دہشتگردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے وہیں شام کو غیرملکی حمایت سے تقسیم کرنے کے اقدامات کر رہی ہے۔چنانچہ شام کوبھی اسی صورت میں فائدہ ہوسکتا ہے کہ اس دہشتگرد تنظیم کاقلع قمع کردیا جائے۔
اس سہ فریقی اجلاس میں میزبان ایرانی صدرابراہیم رئیسی نے کہا کہ تہران شام میں جاری بحران کے سیاسی حل کی حمایت کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ شام کی قسمت کا فیصلہ اس کے عوام کوکسی غیرملکی مداخلت کے بغیر کرناچاہیے۔قابض امریکی افواج کی ناجائز موجودگی نے شام کو غیرمستحکم کیا ہے جبکہ شامی فوج کی طاقتور موجودگی سے ملک کی سالمیت کو برقراررکھنے میں مدد ملے گی۔
اجلاس میں روسی صدرپوٹن کا مؤقف تھا کہ شام کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ملنا چاہیے۔ دنیا بھر میں جہاں بھی بدامنی پائی جا رہی ہے وہیں آپ کو امریکہ موجود ملے گا۔
واضح رہے کہ ترکی نے کردمسلح گروپوں کو دہشت گردقراردے رکھا ہے۔وہ شام سے تعلق رکھنے والے کردملیشیا وائی پی جی کو کالعدم کردستان ورکرزپارٹی (پی کے کے) کی اتحادی اور شاخ ہی قراردیتا ہے۔پی کے کے ترکی کے جنوب مشرقی علاقوں میں مسلح افواج کے خلاف برسرپیکار ہے۔جبکہ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ترکیہ تو پی کےکے کو دہشتگرد قرار دیتا ہے مگرامریکہ اسے اپنا اتحادی گردانتا ہےاور ہرقسم کی مدد دے رہا ہے۔
سابقہ پوسٹ