تحریر:سلمان احمد لالی
جب بھی جنگ لڑی جاتی ہے تو اسکے اہداف طےکیے جاتے ہیں اور اس دوران تمام توانائیاں ان اہداف کی تکمیل پر صرف کی جاتی ہیں۔ جبکہ ان اہداف کا تعین کسی ملک کے تزویراتی مقاصد کرتے ہیں۔ سب سے پہلے روس کے اہداف پر نظر دوڑائیں سادہ الفاظ روسی فوج کو یوکرین کی عسکری قوت تباہ کرنے ، ملک کے اہم شہروں اور تزویراتی اہمیت کی حامل تنصیبات پر قبضہ ، دارلحکومت کیف کو قبضے میں لے کر موجودہ حکومت گرانے اور اسکی جگہ روس نواز سرکار لانا تھا۔ ان اہداف کا تعین روس کی تزویراتی مقاصدیا مجبوریوں نے کیا۔
یوکرین جنگ میں روس کے سٹریٹیجک مقاصد:
روس کی تزویراتی مجبوریوں کو دیکھا جائےپہلے نمبر پر وہ مشرقی یورپ میں سابق سویت ریاستوں میں نیٹو کی صورت میں امریکی اور مغربی یورپ کی عسکری موجودگی کو اپنے تحفظ کیلئے خطرہ سمجھتا ہے اسی لیے روس نے مطالبہ کیا کہ یوکرین نیٹو میں شمولیت کا بھول جائے یا جنگ کیلئے تیار ہوجائے۔
دوسری تزویراتی مجبوری کرائمیا کے ساتھ زمینی راستہ ، جس کیلئے مشرقی یوکرین میں روس نواز باغیوں کے زیر قبضہ ڈونباس کو باقاعدہ طور پر یوکرین سے علیحدہ کرنا اور بحیر ہ ازوف تک رسائی حاصل کرنا ۔
تیسرا تزویراتی مقصد یوکرین میں ہمیشہ کیلئے روس نواز حکومت کا قیام تاکہ بیلاروس کی طرح یوکرین معاشی اور عسکری طور ماسکو کے ساتھ منسلک رہے اورروس کی مغربی سرحدیں محفوط رہیں۔
جہاں تک دوسرے مقصد کا تعلق ہے تو اسکے کیلئے روس ایک عرصے سے سفارتی کوششیں بروئے کار لاتارہا ہے اور نامنڈی فارمیٹ کے تحت منسک معاہدے پر یوکرین کی جانب سے عمل درآمد کیلئے زور دیتا رہا ہے لیکن مغر ب اور امریکہ کی ہلہ شیری کی وجہ سے یوکرین نے منسک معاہدے پر عمل در آمد نہیں کیاجو اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ڈونباس کے روس نواز باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں کو محدود خودمختاری دی جائے اور یوکرین میں روسی زبان بولنے والوں پر لگائی گئی پابندیوں کو ہٹایا جائے .منسک معاہدے کی ناکامی اور یوکرین کی جانب مبینہ طور خلاف ورزی کے نتیجہ میں اوپر دیے گئے سٹریٹجک آبجیکٹو نمبر ایک اور تین کو جنم لیتے ہیں۔
کیا روس جنگ میں اہداف حاصل کر رہا ہے؟
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا روس جنگ میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے ؟ گزشتہ روز روس کے سینئر جنرل سرگئی رزسکوئی نے بیان دیا کہ ڈونباس پر قبضے سمیت روس کے بیشتر ابتدائی اہداف حاصل کیے جاچکے ہیں ۔کیوں کہ ڈونباس کا بیشتر علاقہ روس کے قبضے میں ہے، بحیرہ ازوف تک روس کو رسائی مل چکی ہے اور کرائمیا تک زمینی راستہ قائم ہوگیا ہے۔
لیکن مغربی میڈیا کے مطابق روسی جنرل کا بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہےکہ ماسکو اپنے تیسرے مقصد یعنی دارالحکومت کیف سمیت پورے یوکرین پر قبضے اور حکومت گرانے کے ہدف سے پیٹھے ہٹ گیا ہے۔
لیکن مغربی میڈیا میں دیے جانے والے اس تاثر کے بارے میں بات کرنے سے قبل آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ روس کے ساتویں ائیر بورن ڈویژن کے کمانڈنگ آفیسر میجر جنرل آندرے سکوویسٹکی یوکرین میں سنائپر کی گولی سے ہلاک ہو چکے ہیں۔اسکے علاوہ حکام نے دعویٰ کیا ہے روس کے سات جرنیل ابھی تک جنگ میں کام آچکے ہیں جبکہ ایک جنرل کو دوران جنگ ہی نوکری سے ہٹا دیا گیا جس کی وجہ پے درپے ناکامیاں بتائی جاتی ہے۔ مغربی میڈیا کے دعوے کے مطابق روسی فو ج کے ایک کرنل کو اپنے ہی سپاہیوں نے جان سے ماردیا۔
اگر مغربی ذرائع ابلاغ کی خبروں کو دیکھا جائے تو یوکرین میں حملہ آور فوج میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ، لاجسٹک مسائل اور لڑائی میں مسلسل ناکامیوں نے روس کو اپنی تزویراتی حکمت عملی بدلنے پر مجبور کردیا ہے۔
جنگ کے دوران ٹیکٹیکل لیول(Tactical level) حکمت عملی میں تبدیلی کو ئی بڑی بات ہے لیکن تزویراتی سطح (strategic level)پر حکمت عملی میں بدلاوٗ حملہ آور افواج کی اہداف کے حصول میں ناکامی کی عکاس ہے۔
اگر یوکرین میں ماسکو کو درپیش چیلنجز کو دیکھا جائے تو روس کے زیر قبضہ واحد بڑے شہر خیرسون کو واپس لینے کیلئے یوکرینی افواج دوبارہ صف بند ہو کر حملہ کر رہی ہیں۔ روس بلکہ مغربی ممالک کا تجزیہ بھی یہ ہی تھا کہ روسی افواج یوکرین میں تھوڑی مزاحمت کے ساتھ ہی قبضہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ لیکن دیکھا یہ گیا کہ روسی افواج ناقص نظم و ضبط، مورال ، ناقص سامان حرب اور ناقص حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوکرین میں پھنس چکی ہے۔ جبکہ دیگر علاقوں میں یوکرینی فوج اور رضاکارشہریوں کے ساتھ مل کر جارحانہ انداز میں روسی فوج پر حملہ کررہی ہے۔
روس کا موقف :
روس کا دعویٰ ہےکہ یوکرین کے دفاعی نظام کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ہے اور روس نے تباہی کو روکنے اور شہریوں کے تحفظ کی خاطر شہروں پر قبضہ نہیں کیا۔ لیکن خیرسون اور ماریوپول میں بھی توعام سویلین بستے ہیں آخر وہاں کیوں قبضہ کیا گیا۔ روسی افواج دارلحکومت کیف کا ایک ماہ سے محاصرہ کس وجہ کیے بیٹھے ہیں اور اس سے قبل چھاتہ بردار فورس کےذریعے کیف پر قبضہ کی کوشش ناکام ہو چکی ہے ، اسکے علاوہ بھی کیف پر روسی حملوں کو پسپا کیا جاچکا ہے۔
ایسے میں روسی فوج ڈونباس کے علاقے کی آزادی کو روس کے ابتدائی اہداف کی کامیابی قرار دیتی ہے تو اسے کریملن کی جانب سے روسی عوام کے سامنے فتح کے طور پر فروخت کرنے کی کوشش ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
جنگ بندی پر مذاکرات:
یوں روس کو کریمیا پر قبضے اور شام میں بشار الاسد کی حکومت بچانے کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی نفسیاتی برتری ختم ہونے کا امکا ن ہے۔اور اس سے دونوں ممالک کے درمیان جاری مذاکرات میں روس کی پوزیشن کمزور ہوجائے گی۔ ان مذاکرات کی کامیابی دو امور پر منحصر ہے۔ یوکرین روس کے غیر جانبدار رہنےاور نیٹو میں شمولیت اختیار نہ کرنے کا مطالبہ مان لے، اور روس ڈونباس میں دو خودساختہ آزاد ریاستوں ڈونیسک اور لوہانسک کو تسلیم کرنے کا اقدام واپس لے لے ۔ لیکن دونوں فریقین کی جانب سے اپنے اپنے مطالبات میں لچک کا مظاہر ہ نہ کرنے کی وجہ سے جنگ بندی کیلئے جاری مذاکرات میں سوائے عام شہریوں کے انخلا کیلئے کاریڈور کے تعین کے علاوہ کوئی پیشرفت نہیں دیکھی جارہی ہے۔
ترکی ، فرانس کی ثالثی کی کوششیں:
دوسری جانب سے ترکی اور فرانس کی جانب سے ثالثی اور مذاکرات کے ذریعے بحران کے پر امن حل کیلئے پیوٹن کو مسلسل پیغام رسانی کی جارہی ہے۔ لیکن پیوٹن کو علم ہے کہ ترکی یوکرین کی حد تک اور فرانس یورپی یونین کی پابندیوں کی حد تک شاید اثرانداز ہوسکے لیکن امریکی پابندیوں اور 24فروری کے بعد اعلان کردہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے اقدامات کی واپسی کی ضمانت کو ن دے گا۔اگر امریکہ کی جانب سے مفاہمتی سگنل نہیں آیا تو ایسے مذاکرات کی کامیابی کا انحصار روس یا یوکرین میں سے کسی ایک فریق کی مکمل اور فیصلہ کن فتح پر ہے۔ اگر حالات اسی سمت میں گامزن رہے تو یوکرین جنگ کی شدت میں تو کمی آنا متوقع ہے لیکن اسکاجلد ختم ہونا ممکن نہیں لگتا۔