تحریر:سلمان احمد لالی
یوں تو روس اور یوکرین جنگ کے اثرات عالمی معیشت پر اپنا اثر دکھا رہے ہیں لیکن ترکی کا رواں برس کیلئے اقتصادی پروگرام جنگ سے بہت متاثر ہورہا ہے۔ توقع ہے کہ انقرہ اپنے تعین کردہ تمام اہداف حاصل نہیں کر پائے گا کیوں کہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے، سیاحت میں کمی، ٹیکسٹائل آرڈرز کی منسوخی اور خوراک کی قلت سمیت کئی مسائل جنگ کی وجہ سے جنم لے چکے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ جانتے ہیں کہ ترک حکومت کا نیا معاشی ماڈل ہے کیا۔ انقرہ نے ملک میں ایک غیر روایتی معاشی پالیسی لاگو کی جس کے تحت شرح سود کو کم کرکے قرض کی فراہمی آسان کی گئی تاکہ عالمی وبا کے دوران معاشی ترقی کیلئے وسائل فراہم کیے جاسکیں جس کا لامحالہ نتیجہ افراط زر میں اضافہ کی صورت میں نکلا اور ترک لیرا کی قدر میں شدید کمی کا رجحان پیدا ہوا۔ شرح سود کو بڑھانے کے بار ہا مطالبات کے باوجود اردوان نے اسے کم رکھنے کی متنازع پالیسی کو جاری رکھا اور سینٹرل بینک کے سربراہان کو یکے بعد دیگرے تبدیل کیا جاتا رہاجس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی اور انہوںنے اپنا سرمایہ ترکی سے منتقل کرنا شروع کردیا ، لیکن بات یہاں تک نہیں رکی عام ترک شہریوں نے بھی اپنےپاس موجود بچت کو دیگر کرنسیوں میں منتقل کرنا شروع کردیا جس سے لیرا کی قدر میں مزید کمی دیکھنے میں آئی جس کے بعد سے ترک حکومت نے تیزی سے ایسے اقدامات متعارف کروائے جن سے شہریوں کا اپنے اثاثے دوبارہ لیرا میں منتقل کرنے کی تحریک پیدا ہوئی اور ترک کرنسی کی قدر میں کچھ اضافہ ہوا۔
حکومت دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بناکر اور ملکی پیداوار میں اضافے کے ذریعے برآمدات میں اضافے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے تاکہ ملک کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ سرپلس میں بدلا جاسکے۔
جنگ کے بعد سے ترکی میں افراط زر 54فیصد سے بڑھ چکا ہے اور ترکی کو رواں برس روس اور یوکرین سے آمدنی ہونے کی امید کم ہی ہے ، یاد رہے کہ یہ دونوں ممالک ترکی کے بڑے اقتصادی شراکت داروں میں شامل ہیں جس کے ساتھ ترکی کے سیاحت، زراعت، توانائی اور دفاعی صنعت میں اہم تعلقات ہیں۔
سب سے پہلے سیاحت کی بات کرتے ہیں جو ترکی کیلئے زر مبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ ہے ۔ گزشتہ برس ترکی سے آنے والے غیر ملکی سیاحوں کا سب سے بڑا گروپ روسی باشندوں کا تھا، جن کی تعداد4.7ملین تھی۔جبکہ ترکی میں یوکرینی سیاح جرمنی کے بعد تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ تھے۔ ترکی گزشتہ برس سیاحت سے آمدنی 24.5ارب ڈالر تھی جب کہ رواں برس کا ہدف 35ارب ڈالر رکھا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق ترکی روسی اور یوکرینی سیاح کھونے کے بعد اس ہدف کو پورا نہیں کر پائے گا کیوں کہ یورپی سیاحوں کی جانب سے پہلے ہی بکنگ میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔
گو کہ ترکی نے روس پر پابندیاں عائد نہیں کیں لیکن مغربی پابندیوں کی وجہ سے اور روسی بینکوں کے SWIFT نظام سے منقطع ہونے کی وجہ سے ہوائی سفر اور ادائیگیوں کے نظام میں رکاوٹیں آرہی ہیں۔
ترکی کا اصل مسئلہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ ہے جسے سرپلس میں بلدنے کیلئے حکومت پیداواری قیمتوں کے استحکام کو بہت اہمیت دیتی ہے لیکن توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے پیداواری لاگت کو مستحکم رکھنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ترکی معیشت درآمدی تیلاور گیس پر انحصار کرتی ہے اور اس کے بل میں لیرا کی گراوٹ کی وجہ سے پہلے ہی اضافہ ہوگیا تھا۔
ترکی کا غیر ملکی تجارتی خسارہ 186.3فیصد اضافے کے ساتھ رواں برس کے پہلے دو ماہ میں 18.4 تک پہنچ گیاجس کی بنیادی وجہ توانائی کی بڑھتی قیمتیں ہیں۔
سپلائی چین میں رکاوٹیں اور روس کی بیرون ملک ادائیگیوں کی وجہ سے ترکی کی برآمدات بھی متاثر ہوئی ہیں۔ترکی مصنوعات پہلے یوکرین کے ذریعے زمینی راستے سے روس جاتی تھیں لیکن جنگ کی وجہ سے زمینی راستہ بند ہونے کی وجہ سے ترکی ٹرکوں کو جارجیا کے ذریعے مال روس میں بھیجنا پڑھ رہا ہے جس سے مال بردار ی کی قیمتوں میں 50فیصد اضافہ ہوا۔
جنگ کی وجہ سے ترکی کا ٹیکسٹائل اور چمڑے کا شعبہ بھی متاثر ہوا ہے کیوں کہ سینکڑوں ملین ڈالرز کے آرڈ منسوخ کردیے گئے ہیں۔
سورج مکھی کے تیل کی کمی کے خوف نے پہلے ہی ترکی کو ہلا کہ رکھ دیا ہے کیونکہ یہ سورج مکھی کے بیج کا دنیا کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ روس اور یوکرین ترکی کو اسکی ضروریات کا 70فیصد فراہم کرتے ہیں۔خام سورج مکھی کا تیل ترکی لے جانے والے کم از کم 15 بحری جہاز بحیرہ ازوف میں پھنسے ہوئے ہیں۔ترکی میں خوراک کی قیمتیں پہلے ہی آسمان کو چھو رہی ہیں اور حملے کے بعد ان میں مزید اضافہ ہوا ہے۔