(آصف سلیمی)
پولینڈ میں گرنے والے میزائل سے روس یوکرین جنگ میں ایک نیا باب کھل گیا ہے ۔ جنگ میں جہاں ایک طرف روسی ریچھ یوکرین پیش قدمی کر رہا ہے تو تو دوسری طرف نیٹو فوجی اتحاد کے سفرا برسلز میں اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ایک رکن ملک پر ممکنہ روسی جنگی حملے کا جواب کیسے دیا جائے گا۔ جبکہ انڈونیشیا میں دنیا کے 20 بڑے ممالک جی 20 اجلاس میں روس یوکرین جنگ پر منقسم ہو گئے ۔۔
15 نومبر کو یوکرین کی مغربی سرحد کے قریب ایک فارم ہاؤس میں میزائل گرنے سے 2 افراد جان سے گئے۔ ابتدا میں پولینڈ نے الزام لگایا کہ سرحد سے چھ کلومیٹر کی دوری پر جو میزائل پرزوڈو کے علاقے میں گرا وہ روسی ساختہ ہے۔اس کے بعد پولینڈ کی فوج کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔ پولینڈ کی وزارتِ خارجہ نے وارسا میں روس کے سفیر کو طلب کر کے میزائل حملے پر تفصیلی وضاحت طلب کی۔
کریملن نے پولینڈ کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ ان کا اس میزائل حملے اور ہونے والی اموات سے کوئی تعلق نہیں ۔روسی صدر کے پریس سیکریٹری دمرتی پیسکاؤ نے کہا کہ وارسا کو فوری طور پر یہ واضح کرنا چاہیے کہ یہ ملبہ یوکرین کے 300 ایئرڈیفنس سے گرا ہے۔
یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا نے بھی دعویٰ کیا کہ یوکرین پولینڈ کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ہے ۔ یہ ایک روسی سازشی نظریہ ہے اور جو بھی اس پیغام کو بڑھاوا دے رہا ہے وہ روسی پروپیگنڈا کو مزید ہوا دے رہا ہے۔
الزام اور جواب الزام کا سلسلہ جاری تھا کہ معاملات نے یو ٹرن لیا۔ سب سے پہلے امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے بیان دیا کہ اس بات کے امکان کم ہیں کہ یہ میزائل روس سے داغا گیا ہے۔
اگلے دن 16 تاریخ کو پولینڈ بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گیا۔ صدر ایندرز دودا نے کہا کہ یوکرین کی مغربی سرحد کے قریب فارم ہاؤس میں میزائل گرنے سے 2 افراد کی ہلاکت میں جان بوجھ کر میزائل حملہ کے کوئی ثبوت نہیں ملے ۔بدھ کو صدر دودا نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ اگرچہ یہ روسی ساختہ ایس-300 میزائل ہے ، لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ اسے روس کی طرف سے فائر کیا گیا ہو۔
کیو کے مطابق منگل کو یوکرین پر 90 سے زیادہ روسی میزائل داغے گئے۔ یوکرینی فوج نے دعویٰ کیا کہ 77 میزائل کو مار گرایا گیا لیکن کچھ میزائلوں نے لیوائیو کو نشانہ بنایاجو پولینڈ کے ساتھ ملک کی مغربی سرحد سے زیادہ دور نہیں ہے۔یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ روسی افواج کی طرف سے داغے گئے زیادہ تر راکٹوں کا مقصد ملک کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا تھا۔
دوسری طرف انڈونیشیا میں جاری جی 20 سربراہ کانفرنس روس یوکرین کے معاملے پر تقسیم نظر آئی۔ بالی میں ہونے والی سربراہی اجلاس میں مغربی رہنماؤں نے یوکرین کے شہروں اور شہری انفراسٹرکچر پر روس کے میزائل حملوں کی مذمت کی اور پڑوسی ملک پولینڈ کو اپنی مکمل حمایت کی پیشکش کی۔ اس اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن، برطانوی وزیر اعظم رشی سونک، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور یورپی یونین کمیشن کی صدر ارسولا وان نے شرکت کی ۔
لیکن دوسری طرف نیٹو ہو یا مغرب یا امریکہ ، روس کے خلاف یوکرین کی فوجی مدد کے لیے کوئی بھی ملک سامنے آنے کو تیار نہیں ہے۔ نیٹو مالی طور پر یوکرین کی قرض کی شکل میں مدد کر رہا ہے لیکن تنازع میں زیادہ ملوث نہیں ہو رہا ہے تا کہ کشیدگی میں اضافہ نہ ہو۔جبکہ نیٹو ممالک صرف پولینڈ کے دفاع کی بات کر رہے ہیں جبکہ یوکرین کی مدد صرف پیسوں اور ہتھیاروں سے کی جا رہی ہے۔ لیتھوانیا کے صدر گیتاناس نوسیدا نے نیٹو کی فضائی حدود کے دفاع کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ پولینڈ کی سرحد کے ساتھ ساتھ نیٹو کے بقیہ مشرقی حصے پر فضائی دفاع کی تعیناتی کی کھل کر حمایت کریں گے۔جرمنی نے کہا ہے برلن پولینڈ کے فضائی دفاع میں مدد کی پیشکش کرے گا لیکن نیٹو کے تمام اتحادی اس بات پر متفق ہیں کہ وہ مزید کشیدگی سے بچنا چاہتے ہیں۔نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ انھوں نے پولینڈ کے صدر دودا سے بات کی ہے اور فوجی اتحاد کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے بھی کہا ہے کہ وہ پولینڈ میں ہونے والے دھماکے پر حیران ہیں۔
بادی النظر میں امریکہ اور یورپ کی روس کی تنہائی کی طرف دھکیلنے کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہو رہیں ۔اگرچہ چین کی روس کی حمایت پر امریکہ نے دھمکی دی ہے کہ اگر چین نے روس کی مدد کی تو اسے بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ امریکہ وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے روس کی مدد کی صورت میں صرف امریکہ ہی نہیں دنیا بھر میں امریکی اتحادیوں کی طرف سے چین پر بھاری ہرجانہ کیا جائے گا۔ لیکن یہ دھمکی چین پر اثر انداز ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔