قاہرہ: سوڈان کے جنرل عبدالفتح برہان نے فوجی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر اپنے ہی ملک کے امریکا سمیت چھ ممالک میں موجود سفیروں کو برطرف کر دیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق ان برطرف سفارت کاروں نے وزیر اعظم عبد اللہ حمدوک کی معزول کی گئی حکومت کی حمایت کا عزم ظاہر کیا تھا جس کے بعد فوجی حکومت نے انہیں برطرف کردیا۔
ان سفیروں کو ایک ایسے موقع پر برطرف کیا گیا ہے جب چند گھنٹے بعد ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ملک میں حالیہ واقعات پر اپنا پہلا بیان جاری کرتے ہوئے عبوری سویلین حکومت کی بحالی اور حراست میں لیے گئے افراد کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
حکام کے مطابق جنرل عبدالفتح برہان نے جنیوا میں یورپی یونین اور فرانس سمیت قطر اور چین میں سفیر اور اقوام متحدہ کے مشن کو بھی برطرف کردیا ہے۔
ان سفیروں کی برطرفی سے دو دن قبل فوجی سربراہ نے برہان کی عبوری حکومت کو تحلیل اور وزیر اعظم سمیت متعدد سرکاری عہدیداروں اور سیاسی رہنماؤں کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔
امریکا اور مغربی ممالک نے اس اقدام کی مذمت کی تھی اور مغربی ممالک کے دباؤ پر فوج نے عبداللہ حمدوک کی کو رہا کر کے گھر واپسی کی اجازت دے دی تھی۔
عبدالفتح برہان نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان جھگڑوں کی وجہ سے فوج اقتدار سنبھالنے پر مجبور ہوئی کیونکہ یہ جھگڑے خانہ جنگی کا سبب بن سکتے تھے۔
تاہم فوج کی جانب سے اقتدار پر ایک ایسے موقع پر قبضہ کیا گیا ہے جب عبدالفتح برہان کو چند ہفتوں بعد خودمختار کونسل کی قیادت حکومت کے سپرد کرنی تھی، سوڈان میں حتمی فیصلہ خودمختار کونسل کا تصور کیا جاتا ہے۔
اس بغاوت سے سوڈان میں جمہوریت کی منتقلی کا عمل خراب ہونے کا خطرہ ہے جس کا آغاز 2019 میں ہوا تھا جب ایک عرصے سے موجود عمر البشیر کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا تھا۔
فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضہ کرنے سے قبل فوج اور سویلین حکومت کے مابین کے درمیان ایک عرصے سے کشیدگی جاری تھی۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے فوج کے اس اقدام پر اپنا ردعمل جاری کیا ہے جس کی کونسل کے تمام 15 ارکان کی جانب سے منظوری دی گئی ہے۔
تاہم بیان جاری ہونے سے قبل روس نے اس میں فوجی کے اقتدار پر قبضے کی اصطلاح سے اختلاف کیا جس کے بعد اس میں ترمیم کی گئی اور بعدازاں جاری بیان میں کہا گیا کہ سیکیورٹی کونسل نے 25 اکتوبر کو فوج کی جانب سے کیے گئے اس اقدام پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
امریکہ میں سوڈانی ایلچی نورالدین ستی نے کہا کہ وہ برسلز، پیرس، جنیوا اور نیویارک میں سوڈانی سفارت کاروں کے ساتھ مل کر فوجی بغاوت کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ سوڈانی عوام کی جدوجہد اور القاعدہ کے خلاف بغاوت کے مقاصد کو حاصل کیا جا سکے۔