شام کی عرب دنیا میں واپسی

 

 

 

 

سہیل شہریار
عرب دنیا نے بیرونی مداخلت کے نتیجے میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے خانہ جنگی ، داعش اور اسی جیسے دیگر جنگجو گروپوں کی تباہ کاریوںاور بیرونی فضائی حملوں کا شکار شام کو ایک مرتبہ پھر اپنی صفوں میں واپس لانے کا اشارہ دے دیا ہے۔جسے امریکہ اور اسرائیل کی خطے میں منصوبہ بندی سے واضح انحراف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔جسکا برملا اظہار امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈپرائس نے اس دورے پر اپنے ردعمل میں یہ کہہ کر کیا ہے کہ یہ دورہ ہمارے لئے انتہائی مایوس کن اور پریشانی کا باعث ہے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک بشار الاسد لاکھوں انسانوں کا قاتل اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث شخص ہے۔
جمعہ کے روزمتحدہ عرب امارات کے سرکاری میڈیا نے جب یہ بتایا کہ شام کے صدر بشار الاسد نے 2011 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد کسی عرب ملک کے پہلے دورے میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کا سرکاری دورہ کیا ہے تو بہت سے مغربی تجزیہ کار اس اچانک تبدیلی پر ششدر ہیں۔ کیونکہ امریکی منصوبہ بندی میں شام کو عرب دنیا سے الگ تھلگ رکھنا بنیادی نکتہ ہے اور اسی بنا پر شام کو امریکی پابندیوں کا سامنا ہے۔ مگر متحدہ عرب امارات نے پہلے تو تیل پیدا کرنے والے دنیا کے دوسرے بڑے ملک روس پر پابندیاں عائد ہونے کے بعد تیل کی پیداوار کے معاملے میں سعودی عرب کے ساتھ ملکرمغربی دنیا کے دباؤ کو مسترد کر دیا تھا ۔ تو اب شام کے صدر بشار الاسد کو گرم جوشی سے خوش آمدید کہا ہے۔ اس موقع پر اسد نےابوظہبی کے حقیقی حکمران شیخ محمد بن زاید النہیان سے ملاقات کی۔ جس میں دونوں ممالک کے درمیان "برادرانہ تعلقات” اور مشرق وسطیٰ میں "امن” پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ جس کے بعد وہ دوبئی پہنچے جہاں یو اے ای کے وزیر اعظم اور دوبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم سے بھی تفصیلی ملاقات کی ۔یہ دورہ اب تک کا سب سے واضح اشارہ ہے کہ عرب دنیا شام کے شام کے ایک دہائی قبل کنارہ کشی پر مجبور کر دئیے جانے والےسربراہ حکومت کے ساتھ دوبارہ جڑنے کے لیے تیار ہے۔جس کی ابتدأ اردن اور لبنان نے شام سے تعلقات کی بحالی کے ساتھ کر دی ہے۔
شام کو 22 رکنی عرب لیگ سے نکال دیا گیا تھا اور اس کے ہمسایہ ممالک نے 11 سال قبل امریکی ایما پر شام میں یک جماعتی جمہوریت کے سربراہ کے خلاف مظاہروں سے شروع ہونے والے تنازع اور خانہ جنگی کے بعد ملک کی اپوزیشن کا ساتھ دیتے ہوئے اس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس جنگ میں اب تک لاکھوں افراد مارے جا چکے ہیں۔ اور شام کی نصف آبادی بے گھر ہو گئی ہے۔ شام کا مواصلاتی اور سماجی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے اور تعمیر نو پرسینکڑوں ارب ڈالر لاگت آئے گی۔اور شام کی تباہ شدہ معیشت کے لئے یہ خطیر رقم فراہم کرنا کسی سنہرے خواب سے کم نہیں ہے۔
آج جنگ تعطل کا شکار ہونے اور اتحادیوں روس اور ایران کی فوجی مدد کی بدولت اسد نے ملک کے بیشتر حصے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔اب اسے ملک کی تعمیر نو کے حوالے سے بغیر آلات کے پہاڑ پر چڑھنے سے بھی زیادہ مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ جبکہ دوسری جانب عرب دنیا کو اپنے وقت کے عرب لیگ کے سب سے طاقتور ملک کو اپنی صفوں میں واپس لانے کا چیلنج درپیش ہے۔ کیونکہ ا س ضمن میں امریکہ اور عرب دنیا کی نئی محبت اسرائیل کے بہت سے تحفظات ہیں ۔ جس میں سب سے اہم بشار الاس کے روس اور ایران کے ساتھ قریبی تعلقات اور شامی کی کافی حد تک محفوظ فوجی قوت ہے۔اسکے باوجود حالیہ برسوں میں عرب ممالک شامی حکومت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی طرف بڑھے ہیں۔اور انکی خواہش ہے کہ شام ماضی کی طرح عرب دنیا کا حصہ بن کر ایران کے ساتھ اپنی گذشتہ دہائی میں بڑھنے والی قربتوں کو دوریوں میں تبدیل کرلے۔ یا کم از کم انہیں مخصوص سطح تک محدود کر دے۔
شام کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے اپنے تعمیر نو کے منصوبوں کے لئے محتاط اندے کے مطابق 150ارب ڈالر سے زائد کی رقم درکا ہے جو اسے مغربی اجارہ داری کے حامل بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ملنے کا کوئی امکان نہیں۔ جبکہ اس کے دونوں قریبی دوست روس اور ایران بین الاقوامی پابندیوں کا شکارہونے کی بنا پر بشار الاسد کی مدد کرنے سے قاصر ہیں۔چنانچہ شامی حکومت کے پاس اب عرب دنیا کی طرف واپس لوٹنے کی راہ ہموار کرنے اور رواں سال جنوری میں چین کے بلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ بننے کے بعد دنیا کے دوسرے امیر ترین ملک سے محبت کے عہد وپیما کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔اس بدلتی ہوئی دنیا میں اب امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی بات سننے اور من عن ماننے والے ملکوں کی تعداد بتدریج کم ہو رہی ہے۔ اسی لئےمستقبل قریب میں ہم دیکھیں گے کہ بشار الاسد چین کا دورہ کر رہے ہیں اور دسیوں ارب ڈالر کے تعمیر نو کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کے معاہد ے ہو رہے ہیں۔جبکہ شام کی عرب لیگ میں واپسی اور شامی صدر کے سعودی عرب سمیت دیگر امیر عرب ملکوں کے دورے بھی دیکھیں گے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More