آن لائن (پاک ترک نیوز)
عمران خان کی حکومت میں وزیر خزانہ رہنے والے سینیٹر شوکت ترین کو مقتدرہ نے چند ہفتے قبل طلب کیا، اس میٹنگ میں مفتاح اسماعیل، حفیظ شیخ اور رضا باقر بھی موجود تھے۔ دوران ملاقات شوکت ترین سے ایک اہم شخصیت نے کہا کہ دیکھیں حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات نازک موڑ سے گزر رہے ہیں اسلئے سب کو مل کے آئی ایم ایف کو قائل کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کو قرض مل سکے۔ شوکت ترین نے اس میٹنگ میں کہا کہ اگر میں اس وقت وزیر خزانہ ہوتا اور سابق حکومت کو گرایا نہ ہوتا ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔ انہو ں نے حفیظ شیخ رضا باقر اور مفتاح اسماعیل کے سامنے اپنی حکومت کے دوران کیے گئے اقدامات گنوائے اور آخر میں کہا کہ عمران خان کی حکومت کو گرانے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ میں اب کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ اگر اسمبلیاں توڑ کر عبوری حکومت لائی جاتی ہے تو اس سے تعاون کیلئے تیار ہیں۔
یہ انکشاف سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے نجی ٹی وی چینل پہ ماریہ میمن کو انٹرویو دیتےہوئے کیا۔
اس سے قبل سینیٹ کے فلور پر بھی شوکت ترین نے کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے دوران عمران خان نے انہیں ایک اہم طاقتور شخصیت کے پاس بھیجا تھا ، میں نے اس معتبرشخصیت کو کہا کہ پاکستان کی معیشت بہت بہتر ہےاور اسے آگے لے جانے کیلئے تسلسل کی ضرورت ہے۔ اگر تسلسل نہ رہا تو یہ معیشت بکھر جائے گی۔ اور میری یہ پیشین گوئی بالکل سچ ثابت ہوئی۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان معیشت بہت بہتر حالت میں تھی اور معاشی شرح نمو 6فیصد تھی۔ پاکستان دنیا میں کورونا کے بعد سب سے بہتر پرفارم کرنے والے ممالک شامل تھا۔ اس بات کی گواہی موجودہ حکومت کے دوران جاری کیے گئے اعداد و شمار نے بھی دی۔ اسٹیٹ بینک کے موجودہ گورنر (جنہیں ن لیگ نے لگایا ) نے بھی عمران خان کی حکومتی پالیسیوں کی حال ہی میں تعریف کی۔ اسی طرح عمران خا ن نے حکومت سے نکالے جانےکے بعد انکشاف کیا کہ طاقتور حلقوں کو کرپشن سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
جب یہ حکومت آئی تو یہ اس وعدے پر لائی گئی کہ مہنگائی ختم ہوگی۔ تاہم موجودہ حالات بتا رہے ہیں موجودہ حکومت مہنگائی کو ختم تو کیا کم کرنے کا بھی ارادہ نہیں رکھتی بلکہ اس میں مزید اضافہ کررہی ہے۔ نہ ہی موجودہ حکومت کو معیشت کی سمجھ ہے۔ گزشتہ حکومت کو جس طرح سے ختم کیا گیا اس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔