شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ ترکی، کچھ غور طلب پہلو

 

شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ ترکی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے نئے دور کے آغاز کیلئے اہم کردار ادا کرے گا لیکن ترکی کو سعودی عرب سے معاشی مدد ملے گی؟

تحریر: سلمان احمد لالی

گزشتہ روز سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان انقرہ پہنچے جہاں صدارتی محل میں ترکی لیڈر رجب طیب اردوان نے انکا پر تپاک استقبال کیا ، یہ حالیہ سالوں میں کسی سعودی رہنما کا پہلا دورہ ترکی تھی۔ گزشتہ چند سالوں سے دونوں ممالک کے درمیان متعدد معاملات پر اختلافات رہے ہیں لیکن استنبول میں سعودی قونصل خانے میں واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی کے قتل کے بعد یہ تعلقات کشیدگی کی سطح پر پہنچ گئے ۔ تاہم محمد بن سلمان کے دورہ ترکی سے ریاض اور انقرہ کے درمیان تعلقات کو دوبارہ سے بہتر بنانےا ور دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کا سلسلہ آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔

لیکن گزشتہ ایک برس کے دوران انقرہ رجب طیب اردوان کی قیادت میں اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی لارہا ہے۔ اس نئی حکمت عملی کے تحت ترکی کی جانب سے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے علاوہ تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم اقدامات سعودی عرب، مصر، آرمینیا اور اسرائیل کےساتھ تعلقات کی بحالی کا آغاز تھے۔

اس حکمت عملی کے پیچھے کئی محرکات ہیں۔ لیکن دو انتہائی اہم پہلو وں میں ایک امریکہ میں ڈیموکریٹک انتظامیہ کا آنا اور دوسرا ترکی میں افراط زر کی وجہ سے سیاسی ومعاشی مسائل ہیں۔ ترکی پاکستان کی طرح ان ممالک میں شامل ہے جس نے کورونا وائرس کی وبا کے جزوی خاتمے کے بعدانتہائی تیزی کے ساتھ معاشی ترقی کی جس کی بنیادی وجہ اردوان حکومت کے کئی اقدامات ہیں لیکن ان اقدامات کی وجہ سے افراط زر کا مسئلہ پیدا ہوا۔ جب بینکوں کی جانب سے سستے قرضوں اور دیگر مالیاتی سہولیات کی فراہمی کا آغاز کیا گیا تو معیشت میں تیزی سے اضافہ ہوا لیکن اسکی وجہ سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا۔ وبا سے پہلے ترکی افراط زر اور لیرا کی قدر میں کمی کی وجہ سے مختلف مسائل کا شکار تھا لیکن موجودہ صورتحال نے اس مطالبے کو جنم دیا کہ شرح سود میں اضافہ کیا جائے۔ تاہم اردوان نے متعدد وزرا خزانہ اور مرکزی بینک کے سربراہان کو تبدیل کیا لیکن اپنی کم شرح سود کی پالیسی کو جاری رکھا۔ انکےخیال میں افراط زر کو نمٹنے بہترین طریقہ جاری کھاتہ جات میں خسارے کو سرپلس میں بدلا جائے جس کے کیلئے وہ مختلف ممالک کے ساتھ تجارت بڑھانے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ترکی کی جانب راغب کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ کچھ ماہ پہلے متحدہ عرب امارات نے دس ارب ڈالر کے سرمایہ کاری پیکج کا اعلان کیا جبکہ اسی طرح کے پیکج کی سعودی عرب سے بھی توقع کی جارہی تھی۔

لیکن اہم بات یہ ہےکہ محمد بن سلمان کے حالیہ دورے کے دوران تو اس معاملے پر کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی تاہم آنے والے دنوں میں کچھ معاہدوں پر دستخط متوقع ہیں جس سے ترکی کے معاشی مسائل کو کسی قدر کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ترکی میں آئندہ برس صدارتی انتخابات ہیں جس کی مہم کا آغاز اردوان کی جانب سے کیا جاچکا ہے۔ وہاں بھی پاکستان کی طرح اردوان کے خلاف تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہیں اور المیہ تو یہ ہےکہ وہ جماعتیں ہر موقع پر اردوان کو نیچا دکھانے کیلئے ترکی کے ہی خلاف موقف اپناتی ہیں۔ ترکی کی سیکولر اشرافیہ چاہے باسفورس کا معاملہ ہو، نہر استنبول اور معاہدہ میڑروکس کی بات ہو یا یونان کی جانب سے بحیرہ روم میں جزائر کو ملٹرائز کرنے کی بات ہو ، ملکی خارجہ پالیسی کے خلاف ہی موقف اپناتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ملک میں اسلام پسند طبقہ اردوان کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔
اگر موجودہ حالات میں ترکی اپنے کرنٹ اکاونٹ خسارے کو سرپلس میں بدل کر افراط زر کی عفریت پر قابو پاتا ہے تو آئندہ برس اردوان کے ایک بار پھر صدر منتخب ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
ایسے میں خطے کے ممالک کے ساتھ معاشی تعاون بے حد ناگزیر ہے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More