صدر رجب طیب ایردوان اسرائیل کو تنہا کرنے جیسے خطرناک اقدام کر رہے ہیں اور دوسری طرف ترکی اسرائیل کے دشمنوں کو طاقتور بنا رہا ہے جس سے اسرائیل کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق انقرہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ صدر ایردوان اپنی اسرائیل پالیسی کو تبدیل کریں۔
اسرائیل کے یروشلم پوسٹ نے کہا ہے کہ اگر صدر ایردوران اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اسرائیل کو نازی اسٹیٹ کہنا بند کرنا ہو گا۔ ترکی حماس کے رہنماؤں کو ملک بدر کرے اور اسرائیل مخالف گروپس کی امداد کو روکے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق دسمبر میں صدر ایردوان نے غیر متوقع طور پر اسرائیل کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات 2010 میں اس وقت کشیدہ ہو گئے تھے جب اسرائیلی فورسز نے ترکی کے ایک امدادی بحری جہاز پر حملہ کیا تھا جو غزہ کے لئے امداد لے کر جا رہا تھا۔ ماوی مارمرا نامی اس بحری جہاز میں دس کارکن اسرائیلی فائرنگ سے شہید ہو گئے تھے جن میں اکثریت ترکوں کی تھی۔
ترکی امریکہ کے دباؤ پر عرب ممالک اور اسرائیل کے تعلقات پر بھی سخت تنقید کرتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے غزہ پر حملوں پر بھی صدر ایردوان خاموش نہیں رہے۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ جب تک صدر ایردوان اسرائیل کو جرمنی کے نازیوں کے نام سے پکارتے رہیں گے اس وقت تک دونوں ملکوں کے تعلقات کی بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ترکی کو فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے رہنماؤں کا شاندار استقبال بند کرنا ہو گا کیونکہ حماس کے رہنماؤں کو ریڈ کارپٹ ویلکم کرنے سے اسرائیلی شہریوں کو دکھ پہنچتا ہے۔
واضح رہے کہ صدر ایردوان نے حماس کے رہنما اسماعیل حانیہ کے ساتھ گذشتہ سال دو بار ملاقات کی جس پر اسرائیل نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔