طالبان جنیوا میں اہم مذاکرات کیلئے پہنچ گئے

طالبان وفد امداد کی فراہمی اور منجمد اثاثہ جاری کروانے کیلئے جنیوا میں ایک کانفرنس میں شرکت کر رہا ہے جو جنیوا کال فاوٗنڈیشن نامی غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے منعقد کی جارہی ہے۔
غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ مسلح نتازعات، کورونا وائرس اور شدید سردی کے اقتصادی اور معاشی اثرات نے ملک کو انتہائی پیچیدہ صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔جہاں 23ملین افغان شہری غذائی قلت کے خطرے سےدوچار ہیں اور 97فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
طالبان کو کانفرنس میں موجودہ بحران، شہریوں کے تحفظ، انسانی حقوق کے علاوہ انسانی امداد کی بلا تعطل ترسیل پر بات چیت کیلئے مدعو کیا گیا ہے۔طالبان وفد کانفرنس میں شرکت کے علاوہ سوئس اور دیگر یورپی حکام سے ملاقاتوں کے علاوہ ریڈکراس حکام سے بھی ملاقات کرے گا۔ اس سے قبل طالبان نے یورپی حکام سے اوسلو میں ملاقات کی جس میں انسانی امداد کی بحالی اور افغانستان کے مالیاتی اثاثوں کے انجماد کو ختم کرنے کے علاوہ انسانی حقوق اور لڑکیوںکو تعلیم کی فراہمی کے حوالے بات چیت کی گئی۔ اوسلو مذاکرات کو جلا وطن افغان شہریوں کی جانب سے شدید تنقید کانشانہ بنایاگیا جس نے ملاقاتوں کو طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے مترادف قرار دیا۔لیکن سوئس حکام نے کہا ہے کہ طالبان کی انکے ملک میں آمد کا مطلب یہ ہر گزنہیں ہے کہ انکی حکومت کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔
مذاکرات کے سیاسی مقاصد:
کابل میں طالبان کی عبوری حکومت میں وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اوسلو مذاکرات کے بعد امید ظاہر کی تھی کہ طالبان حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرلیا جائے گا۔ماہرین کے مطابق یورپی ممالک امداد کی فراہمی اور انسانی حقوق کی آڑ میں طالبان سے سیاسی امور پر بھی بات چیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جنیوا میں 10رکنی وفد کی قیادت لطیف اللہ حکیمی کر رہے ہیں جو وزارت دفاع کے ایک سینئر اہلکار ہیں اور طالبان کے ضوابط کی خلاف ورزی کی نشاندہی کرنے والے کمیشن کے سربراہ ہیں ، انکی قیادت میں طالبان کا انسانی حقوق اور انسانی امداد کی فراہمی پر ہونے والے مذاکرات میں شریک ہونا معنی خیز ہے۔

 

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More