عالمی معیشت میں بھونچال آنے والا ہے؟

 

 

.تحریر:سلمان احمد لالی

پاکستان کے لوگوں کو ابھی تک سمجھ نہیں آرہی کہ ملکی معیشت یہاں تک کیسے پہنچی اور اب دنیا بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہونے لگی ہے۔ ورلڈ بینک نے خبردار کیا ہے کہ عالمی معیشت 1970کی دہائی کی سطرح stragflationکا شکار ہو سکتی ہے۔ پوری دنیا کی معیشت کو ایسی صورتحال لاحق ہے کہ کئی برس سے معاشی نمو یعنی گروتھ کمزور ہے اور قیمتیں ہیں کہ آسمان بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔
یہ ایک بہت ہی خطرناک اور زہریلا امتزاج ہے لیکن اس سے وہ ملک اور بھی زیادہ متاثر ہوں گے جو بھی بھی کورانا وائرس کے معاشی اثرات سے نکلنے کی کوشش کررہےہیں۔
انیس سو ستر کی دہائی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے نے معاشی گروتھ کو منجمد جبکہ ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کیا جس سے اس بیماری نے جنم دیا جس کو اسٹیگ فلیشن کہتے ہیں۔ آج عالمی معیشت ایک بار پھر اسی مرض میں مبتلا ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ورلڈ بینک نے عالمی معیشت کے گروتھ ریٹ کی پیشین گوئی کو 4.1فیصد سے 2.9فیصد تک کردی ہے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے نتیجے میں متعدد اشیا کی قیمتوںمیں اضافہ، افراط زر کے جن کو بے قابو کر رہا ہے جس سے معیشت سست روی کا شکار ہوگی۔2023 اور 2024کے دوران یہ صورتحال برقرار رہنے کی توقع ہے۔
ورلڈ بینک نے کہا ہےکہ کساد بازاری یعنی recessionکے بعد عالمی معیشت میں یہ سب سے زیادہ مندی ہوگی جو عالمی معیشت میں 80سے زائد سالوں کے بعد آئی ہے۔ صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ یوکرین پر روسی حملے سے عالمی تجارت اور مالیاتی نیٹ ورک ٹوٹ سکتا ہے۔ اور خوراک در آمد کرنے والے ممالک میں سماجی بد امنی بھی جنم لے سکتی ہے۔
اس سے پیدا ہونے والے عدم استحکام سے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک معاشی طور پر جمود کا شکار ہو ں گے۔ کچھ علاقوں میں غذائی قلت اور بھوک حتیٰ کہ قحط کا بھی شدید خطرہ ہے۔
اگر حالات بدترین نہج پر پہنچ گئےتو اگلے دو سالوں میں عالمی معاشی گروتھ صفر تک گر سکتی ہے۔
تمام ممالک بالخصوص بڑے ممالک کے پالیسی سازوں کو یوکرین کی جنگ کے نتائج کو کم کرنے کیلئے فوری طور پرکام کرنا چاہیے۔ ممالک کو خوراک اور ایندھن کی ادائیگیوں میں مدد کرنی چاہیے۔ قرضو ں نجات کے عمل میں بھی امداد کرنی چاہیے اور ایسی پالیسیو ں سے گریز کرنا چاہیے جن میں بر آمدی پابندیوں اور قیمتوں کو ریاستی سطح پر کنٹرول کیا جائے۔ترقی پذیر ممالک میں عالمی وبا کی وجہ سے فی کس آمدنی پہلے ہی پانچ فیصد تک کم ہو چکی ہے۔
افراط زر میں اضافے کی وجہ سے بہت سے ممالک کے مرکزی بینک شرح سود میں تیزی سے اضافہ کریں گے جیساکہ 1970میں کیا گیا۔اس سے کچھ ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں عالمی مندی اور مالیاتی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
کچھ ترقی پذیر ممالک غیر ملکی بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کے شدید مقروض ہیں۔ شرح سود میں اضافہ ایسے ممالک کیلئے کمر توڑ ثابت ہو رہا ہے۔ اور جیسے ہی شرح سود میں ممکنہ اضافہ ہوگا تو اپنی بیرونی ضروریات پوری کرنے کیلئے انہیں مزید قرضوں کی ضرورت ہو گی لیکن شرح سود میں اضافہ ان پر تباہ کن اثرات مرتب کرے گا۔
ورلڈ بینک کے سربراہ کا کہنا ہےکہ ابھی حال ہی میں سری لنکا نے غیر ملکی قرضوں میں ڈیفالٹ کیا ہے لیکن یہ واحد ملک نہیں بلکہ کئی اور انتہائی مقروض ممالک بھی ایسا ہی کریں گے۔
دنیا کی کئی بڑی معیشتیں یعنی چین ، یورپ اور امریکہ بھی اس کے نقصانات سے بچ نہیں سکیں گے۔ اقتصادیات ے ماہرین توقع کررہے ہیں کہ امریکہ جیسے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بھی 2.5فیصد تک ترقی کرے گی۔ چین کی معیشت میں 4.3تک ہی ترقی متوقع ہے جو کہ 1990کے بعد سے سب سے کم گروتھ ریٹ ہوگا۔
عالمی معیشت سے یہ توقع تھی کہ وہ رواں برس کورونا وائرس کے معاشی اثرات سے بتدریج نکل آئے گی لیکن یوکرین پر روس کے حملے نے صورتحال کومزید مشکل بنا دیا ہے۔
برینٹ خام تیل کی فی بیرل قیمت اس سال تقریبا 50فیصد اضافے کے ساتھ 120ڈالر تک پہنچ گئی۔ گند م کی قیمت میں بھی کچھ ایسا ہی رجحان دیکھا گیا۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More