اسلام آباد(پاک تر ک نیوز) رہنما تحریک انصاف اور سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے کہا ہے کہ الیکشن کمشنر سے حکمران اتحاد کے وفد کی ملاقات کے بعد فیصلہ آیا۔ عجلت میں آئے فیصلے میں نقائص ہیں۔
سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چودھری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر قانون کی خواہش پر الیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا اور فیصلے کی جو کاپی دی گئی اس کی ایک لائن میں تبدیلی کر کے رات فیصلہ ویب سائٹ پر ڈال دیا گیا۔ فیصلے پر دستخط کرنے میں سندھ کے اراکین بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عجلت میں فیصلہ سنایا اور الیکشن کمشنر سے حکمران اتحاد کے وفد کی ملاقات کے بعد فیصلہ آیا۔ عجلت میں آئے فیصلے میں نقائص ہیں۔
فواد چودھری نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف تادیبی کارروائی کے لیے قانون کا استعمال کریں گے۔ کل تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے باہر بھرپور احتجاج کرنے جا رہی ہے لیکن الیکشن کمیشن کے کارنامے سے حکومت خوش ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر اور سندھ کے اراکین پر ریفرنس دائر ہو چکا ہے کیونکہ پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے پر سندھ اراکین کے دستخط بھی ہیں جبکہ الیکشن کمیشن سندھ کے اراکین پر کیسز ہیں۔ الیکشن کمیشن میں کیس زیرالتوا تھا لیکن حکمران اتحاد کے وفد نے ملاقات کی جبکہ زیرالتوا کیسز پر چیمبر میں بھی ملاقاتیں نہیں ہوتیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو 2002 کے قانون کے مطابق ریفرنس بھیجنے کا اختیار نہیں۔ ہم الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف عدالت جا رہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجہ پر ریفرنس فائل ہوچکا ہے۔
سابق وفاقی وزیر کی پریس کانفرنس کے دوران برطانیہ میں مقیم خاتون کا بیان چلوایا گیا جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ میں محب وطن پاکستانی ہوں اور مجھے فیصلے میں غیر ملکی ظاہر کیا گیا۔ میں الیکشن کمیشن کے خلاف قانونی چارہ گوئی کا حق رکھتی ہوں۔ میں 90 کی دہائی سے تحریک انصاف کی کارکن ہوں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں سقم کے پہاڑ ہے اور ہم اس کے خلاف جائیں گے۔ 84 سیٹوں والی جماعت 155 والی جماعت پر پابندی کا کہہ رہی ہے لیکن میں ن لیگ اور دیگر جماعتوں سے کہنا چاہتا ہوں آپ اپنے قد کے مطابق بات کریں۔ الیکشن کمیشن نے پی ڈی ایم کے ٹول کے طور پر کام کیا۔
فواد چودھری نے کہا کہ خادم نبی کی سنگل مین کمپنی ہے اور تمام غیر ملکی کمپنیز سنگل مین کمپنیز ہیں جس میں کوئی شیئر ہولڈرز نہیں ہیں۔ کمپنیز کے لوگوں نے بھی اپنا مؤقف دے دیا ہے۔ جن کے بارے میں کہا گیا کہ یہ غیر ملکی ہیں پاکستانی نہیں۔