ممنوعہ فنڈنگ کیس ،اسلام آباد ہائیکورٹ کا عمران خان کو گرفتار نہ کرنے کا حکم

اسلام آباد (پاک ترک نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران کو گرفتار نہ کرنے کا حکم دیدیا۔
تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے درج مقدمے میں گرفتاری سے بچنے کے لیے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
اسلام آبا دہائیکورٹ نے چیئر مین پی ٹی آئی عمران خان کو ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ضمانت کی درخواست پر آدھے گھنٹے میں طلب کیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت درج ایف آئی اے کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت جاری ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ عمران خان کی درخواست پر سماعت کررہے ہیں۔
وکیل عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کے دو شریک ملزمان نے ضمانت کے لیے بینکنگ کورٹ سے رجوع کیا۔ بینکنگ کورٹ اور سپیشل جج سینٹرل دونوں عدالتوں نے سننے سے معذرت کی۔عمران خان کی گرفتاری کا خدشہ ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ آپ کے خیال میں ممنوعہ فنڈنگ کیس کون سی عدالت میں جانا چاہئے ؟ وکیل نے جواب دیا کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس سپیشل جج سینٹرل کی عدالت جانا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ عمران خان کہاں ہیں ؟ پیش کیوں نہیں ہوئے ؟ وکیل نے جواب دیا کہ عدالت حکم کرے تو عمران خان فوری عدالت پیش ہوجائیں گے۔بنی گالہ میں پولیس نے عمران خان کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔
اسلام آبادہائیکورٹ نے عدالت پیشی تک عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا۔ درخواست گزار تین بجے تک اس عدالت میں پیش ہوجائیں۔ وکیل نے کہا تین بجے دیر ہو جائے گی ابھی آدھے گھنٹے میں آجاتے ہیں۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہاٹھیک ہے آجائیں
عمران خان نے فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ایف آئی اے نے فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر رکھا ہے ۔عدالت حفاظتی ضمانت منظور کرے تاکہ متعلقہ عدالت میں پیش ہو سکیں۔
عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر رجسٹرار نے تین اعتراضات عائد کیے ہیں۔ رجسٹرار کے مطابق عمران خان نے بائیو میٹرک نہیں کرائی ۔ایف آئی آر کی غیر مصدقہ نقل لگائی گئی ہے۔
رجسٹرارآفس نے یہ اعتراض بھی عائد کیا ہے کہ خصوصی عدالت میں جانے سے پہلے ہائی کورٹ کیسے آسکتے ہیں۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More