محمد بلال افتخار خان
وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا دورہ روس پاکستان کے لئے ایک اہم دورہ ہے جو عالمی شطرنج پر ایک اہم موقع پر کیا گیا۔ اس دورے کی دعوت صدر پیوٹن نے جنوری میں وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے ، پیوٹن کے اسلامو فوبیا پر دیئے بیان کے بعد کی جانے والی فون کال پر دی تھی۔
یہ ایک بائیلیٹرل دورہ تھا جسے پاکستان میں آپوزیشن اور چند صحافیوں نے یوکرین تنازع اور روس امریکہ کشیدگی سے نتھی کرنے کی کوشش کی۔
پاکستانی سیاستدانوں کی ٹویٹس اور بیانات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پُرانے اتحادی امریکہ کی جانب سے بھی اس دورے کے حوالے سے بیان سامنے آیا ۔ امریکی محکمہ خارجہ کے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے وزیر اعظم پاکستان کے دورہ روس پر کہا کہ پاکستان کے ساتھ ہماری دیرینہ شراکت داری اور تعاون ہے، جمہوریہ پاکستان کے ساتھ شراکت داری کو امریکی مفادات کے لیے اہم سمجھتے ہیں، ہر ذمہ دار جمہوری ملک روس پر باور کرائے کہ عدم استحکام پھیلانے والی جنگ سے بچا جائے۔
اب اگر سفارتی آداب اور بین الاقوامی سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے تو معاملات سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ اگر وزیر اعظم اس دورے کو ملتوی کر دیتے تو اسے روس ایک بے عزتی کے توڑ پر دیکھتا جو پاکستان کے نظریہ انٹرکونیکٹیویٹی اور ریجنل ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے برخلاف ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جیو اکنامک پالیسی کے بھی بر خلاف ہوتی۔ بھارت جو کواڈ گروپ میں امریکہ کا اتحادی اور امریکی انڈو پیسیفک کا ایک اہم حصہ ہے نے یوکرین کے معاملے میں نیٹرل پالیسی اپنائی ہے تاکہ روس بھی ناراض نا ہو اور امریکی کیمپ میں بھی وہ شریک رہے۔ جبکہ چینی پالیسی بھی پازیٹیو نیوٹریلیٹی کی ہے اور وہ جہاں روس کے خلاف نہیں گیا وہیں یوکرین کے خلاف بھی نہیں گیا۔
بین الاقوامی سیاست میں نیوٹریلیٹی پاکستان کی فارن پالیسی میں پہلی بات دیکھنے کو ملی ہے جس میں جہاں پاکستان یوکریں کی سالمیت کے حق میں ہے وہاں روس کے خلاف بھی نہیں۔۔
خطہ اس وقت ایک اہم دور اور تبدیلی سے گزر رہا ہے۔۔ چینی بی آر آئی منصوبہ اور روسی یورو ایشین یونین منصوبہ ایک دوسرے کو کومپلیمنٹ کرتے ہیں ۔۔ یہ منصوبے خطے کی معاشی معاملات خصوصاً پاکستان کے لئے گیم چینجر ہیں۔ اسی طرح افغانستان کے معاملے پر پاکستان ، روس ، وسطی ایشیائی ریاستوں اور چین کا موقف ایک جیسا ہے۔۔ جبکہ روس پاکستان تعلقات میں بہتری پاکستان میں روسی انویسٹمنٹ سمیت ٹیکنولوجی اور دفاعی تعاون کے دروازے بھی کھول دے گی۔
اس کے علاوہ پاکستان کا ااہم ترین اتحادی چین اور روس ایک دوسرے کے نہایت قریب ہیں جن کی گھیرا بندی کرنے کے لئے امریکہ کواڈز اور آکس جیسے اتحاد بنا رہا ہے جبکہ روس کی گھیرا بندی کے لئے روس کے قریب واقع ممالک میں در اندازی کی کوششیں کر رہا ہے۔
ایسے میں کسی قسم کا منفی تاثر پاکستان کے لئے بہتر نہیں تھا۔۔
اس دورے کی اہمیت اس طرح بھی بڑھ جاتی ہے کہ ایک طرف جب امریکہ اور اُس کے اتحادی امریکہ پر پابندیان لگا رہے ہیں وہاں چین کے بعد پاکستان نے کسی بھی قسم کا غلط سیگنل دیئے بغیر یہ دورہ معمول کے مطابق کیا ہے جو روس کا اعتماد بڑھانے کے لیئے ایک اہم قدم ہے۔
آج خصوصاً ڈس انفارمشن کا دور دورہ رہا۔ یہ افواہ گرم رہی کہ وزیر اعظم دورہ مختصر کر کے واپس آ رہے ہیں لیکن جب اُن کے شیڈیول پر نظر دہرائیں تو یہ دورہ شروع 23 فروری کو اور ختم 24 یعنی آج ہی ہونا تھا ۔
دوسری طرف یہ ملاقات اتنی اہم تھی کہ اس کا دورانیہ ایک گھنٹے تھا۔۔لیکن یہ ملاقات اڑھائی گھنٹے سے زیادہ جاری رہی ۔جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی اہمیت روس کے لئے اور خطے میں بڑھ رہی ہے۔۔
وزیراعظم عمران خان کی روسی صدر پیوٹن سے ملاقات کے موقع پر وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور مشیر قومی سلامتی معید یوسف بھی موجود تھے۔ ملاقات میں توانائی،معاشی،تجارتی شعبوں میں تعاون پر گفتگو کی گئی اور افغانستان کی صورتحال اوراسلاموفوبیا کا موضوع بھی زیرغور آیا۔ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا جن میں یوکرین تنازع بھی شامل ہے۔
ملاقات کے بعد وزیر اعظم ہوٹل چلے گئے جس کے بعد وزیر اعظم کی روسی نائب وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی جو وزیر توانائی بھی ہیں۔
روسی صدر سے ملاقات سے قبل وزیراعظم نے روس کے جنگ عظیم دوئم کے گمنام سپاہیوں کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ اور گمنام فوجیوں کے مقبرے پر پھولوں کی چادر چڑھائی تھی۔
وزیر اعظم کا دورہ روس پاکستان کے لیئے نئے دروازے کھولے گا اور انشاء اللہ اس کے دور رس اثرات ہونگے۔