پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان رسہ کشی

سلمان احمد لالی
گزشتہ برس جب طالبان نے کابل پر کنٹرول سنبھالا تو پاکستان میں بہت سے حلقوںمیں اس پر بہت خوشی کا اظہا رکیا۔پاکستان میں بہت سے لوگوںنے اسے بھارت اور امریکہ نواز حکومت کے خاتمے سے تعبیر کیا جس کے بعد پاکستان عالمی سطح پر کابل کے اہم حامیوں میں سے ایک بن کر ابھرا اور دنیا سے افغانیوں کیلئے فوری مالی امداد کا مطالبہ بھی کیا۔
لیکن حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان اور طالبان کے دیرینہ تعلقات میں دراڑیں پیدا ہونے کے آثار نظر آنے لگے جب دونوں ممالک کے درمیان عالمی حد بندی پر اختلافات کے علاوہ طالبان کی جانب سے دہشتگرد جماعت ٹی ٹی پی کی حمایت بھی کشیدگی کا باعث بنی۔گو کہ پاکستان کا طالبان پر ایک حد تک اثر و روسوخ موجود ہے جس نے افغان عبوری کابینہ میں پاکستان حامی حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے افراد کو اہم وزارتیں دلانے میں کردار ادا کیا اور پاکستان مخالف سمجھے جانے والے ملا غنی برادر کو اہم حکومتی عہدہ نہ ملنے کی وجہ بھی پاکستانی اثر رسوخ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس سے بہت سے حلقے ناراض بھی ہوئے جس کا نتیجہ بارڈر پر ایک جھڑپ کی صورت میں نکلا جب طالبان نے پاکستانی کارکنوں کو باڑ لگانے سے روک دیا جس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ طالبان بھی اپنے پیشرو ں کی طرح ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد نہیں مانتے۔ اس کے جواب میں افواج پاکستان کے ترجمان نے کہا کہ اس باڑ کو لگانے میں ہمارے شہدا کا خون بہایا گیا ہے، یہ امن کی باڑ ہے اور یہ مکمل ہوگی۔

:ٹی ٹی پی
جنہیں افغان طالبان کا نظریاتی حامی سمجھا جاتا ہے۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان وقتا فوقتا تعاون کی اطلاعات بھی آتی رہیں اور دونوں کے قیادت کے درمیان کچھ معاملات پر ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کابل کاکنٹرو ل سنبھالنے کے بعد افغان طالبان نے جیلوں میں قید ٹی ٹی پی کےکئی اہلکاروںکو رہا کردیا جن میں کچھ سر کردہ دہشتگرد بھی شامل تھے۔ اس وقت بھی ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں مقیم ہے ۔ ٹی ٹی پی نے 2007 سے لے کر اب تک اسی ہزار پاکستانیوں کو شہیدکیا اور معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
گزشتہ برس سے ٹی ٹی پی نے پاکستان میں اپنی کاروائیاں تیز کردیں جس میں چینی مزدوروں کے علاوہ چینی سفارتکاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔گو کہ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی قیادت میں نیٹو افوا ج کی موجودگی نے ٹی ٹی پی کو جنم دینےمیں مدد کی۔لیکن حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دہشتگر د گروہ کو افغانستان کی نئی اتنظامیہ میں کچھ پاکستان مخالف عناصر کی اعانت حاصل ہے۔
گزشتہ برس نومبر ٹی ٹی پی اور پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان جنگ بندی ہوئی جسکے دوران افغان طالبان اور پاکستانی حکام کے درمیان خفیہ مذاکرات بھی ہوئے لیکن افغان طالبان کی ثالثی میں ہونے والےیہ مذاکرات نتیجہ خیز نہ نکلے۔جس سے خدشہ پیدا ہوگیا ہےکہ اسلام آباد اور کابل کے مابین تعلقات میں سرد مہری آجائے۔
افغان طالبان میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ پاکستان کے مطالبے پر ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی اسے دولت اسلامیہ خراسان سے اتحاد کی جانب سے راغب کرے گی۔جبکہ ٹی ٹی پی پاکستان کے بارے میں نرم رویہ اپنانے پر ان کارکنا ن کی حمایت سے محروم ہو سکتی ہے جو اب تک پاکستان کی افواج کےخلاف برسرپیکار رہے ہیں اور انکے خاندانوں نے اسکی بھاری قیمت بھی چکائی ہے۔
طالبان کے ساتھ سرحدی تنازعے اور ٹی ٹی پی کی حمایت جیسے معاملات کے حل کے فوری حل کی ابھی تک کوئی توقع نہیں ہے۔ اگر طالبان سابقہ حکومتوں کی طرح پشتون اتحاد اور ڈیورنڈ لائن بین الاقوامی سرحد تسلیم نہ کرنے کی پالیسی پر ثابت قدم رہتے ہیں تو تعلقات میں مزید کشیدگی کے سوا کوئی اور صورت نہیں نظر آتی۔جہاں تک ٹی ٹی پی کی بات ہے تو اسکی جانب سے چینی اہلکاروں اور اثاثوں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے پاکستان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ وہ اسکے خلاف سخت رویہ اپنائے ۔
ایسے میں پاکستان طالبان کیلئے کچھ مشکلات پیدا کرسکتے ہیں جیساکہ دوطرفہ تجارت میں کمی لیکن اسکا بھی پاکستان کو ہی نقصان ہوگا۔ اسی طرح پاکستان طالبان مخالف گروہوں کی امداد کر سکتا ہے جو طالبان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کردار ادا کرسکتا ہے لیکن اس سے پاکستان کا طالبان پر اثر و رسوخ زائل ہوجائے گا بھارت جو اس ساری صورتحال کو بہت غورسے دیکھ رہا ہے ، موقع کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ اسکے علاوہ دیگر انتہائی اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں لیکن انکے مضر اثرات سے پاکستان بھی بچ نہ پائے گا۔
ایسے میں کابل کے پاس ایک راستہ تو یہ ہے کہ وہ بھارت ، یورپ اور امریکہ کے قریب آنے کی کوشش کرے جو اس قدر آسان نہیں ہے کیوں کہ امریکہ اور یورپ اسے اپنی نظریاتی اثاث سے ہٹنے پر مجبور کرسکتے ہیں اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ دہشتگرد گروہوں کے ساتھ تعلقات پھر سے استوار کرےاور بنیاد پرستی کی روش اختیار کرتے ہوئے دنیا بھر کیلئے درد سر بن جائے۔ یہ صورتحال پاکستان کیلئے قابل قبول نہیں ہوگی کیوں کہ پاکستان افغانستان کے ذریعے وسطی اشیائی ممالک تک زمینی راستہ کھلا رکھنا چاہتا ہےاسکے علاوہ اسلام آباد کو اس بات کا ادراک ہےکہ ایسی صورت میں پاکستان میں شدت پسندانہ اور دہشتگردی کی کاروائیاں زور پکڑ لیں گی اور اسکا مغرب ایک بار پھر شورش اور بد امنی کا شکار ہوجائے گا۔ عموما ایسی صورتحال کا غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں فائدہ اٹھاتی ہیں اور سی پیک منصوبوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کیلئے پاکستان کے پاس اس کے سوااور کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا کہ وہ طالبان کے ساتھ بہتر تعلقات کی کوشش کریں۔ آئندہ مہینوں میں افغانستان کی صورتحال انتہائی پیچیدہ رہے گی اور مستقبل قریب میں ان مسائل کے حل کی توقع نہ ہونے کی وجہ سے ماسوائے طویل انتظار اور صبر کے کٹھن مراحل سے گزرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More