پاکستان کو روس کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے؟

سلمان احمد لالی
میں بارہا اپنے کالموں اور مضامین میں ایک بات کہہ رہا ہوں کہ روس اور یوکرین کی جنگ کے دنیا بھر پر اثرات مرتب ہوں گے اور موجودہ معاشی صورتحال سے نمٹنے کیلئے یوکرین میں جنگ بندی ضروری ہے۔ جنگ بندی کیلئے روس اور یوکرین سے تو کئی ممالک بات کر چکے ہیں لیکن اب سب کو مل کر امریکہ پر دباو ڈالنا ہو گا کہ وہ اس جنگ کو رکوائے کیوں کہ استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے بعد اس پراسس میں تعطل کی وجہ امریکہ قرار پایاہے ۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بوجھ تلے پس رہے ہیں اور روسی اقدامات کی بھاری قیمت یہاں کے غریب عوام سے وصول کی جارہی ہے۔ سب کو علم تھا کہ روسی گیس اور تیل پر پابندی کا لازمی مطلب ہے ایل این جی کی یورپ اور امریکہ میں ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگا۔یعنی پاکستان کو اب مارکیٹ سے مہنگے داموں ایل این جی خریدنا پڑے گی۔
آج پاکستان کو سپاٹ مارکیٹ میں ایک کارگو 100ملین ڈالر کا پڑتا ہے جو ناقابل برداشت حد تک مہنگاہے۔ کیوں کہ پاکستان کی اپنی گیس کی پیداوار2030تک ملکی ضروریات کا صرف 22.3فیصد ہی پورا کر سکتی ہے اسلیئے پاکستان کو ایل این جی کی در آمدات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
اگر آئی پی اور تاپی گیس پائپ لائن پر کام مکمل کرکے ٹرانسمیشن نیٹ ورک کے ساتھ نہ جوڑا گیا تو گیس کا شارٹ فال بہت زیادہ ہوجائے گااور روسی گیس پر انحصار روکنے کیلئے یورپ میں ایل این جی کی طلب میں اضافہ پاکستان جیسے ممالک کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا۔
روس دنیا کا گیس پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے ۔ یورپی معیشت روسی گیس پر چلتی ہے۔ لیکن یوکرین جنگ نے تیل اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا جس کی وجہ سے بہت سے ممالک بالخصوص یورپ اپنی انرجی سپلائی پر از سر نو غور کرنے پر مجبو ر ہیں۔
امریکہ اور یورپی ممالک کا منصوبہ ہےکہ روسی گیس کی درآمد میں بتدریج کمی لائی جائے اور رواں برس کے آخر تک دو تہائی تک سپلائی میں کمی لائی جائے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ یورپ میں ایل این جی کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے۔ اور ایل این جی ایکسپورٹ کرنے والے بڑے ممالک بالخصوص قطر نے اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کا بھی اعلان کیا ہے۔
یوں پاکستانی عوام ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنے پر مجبور ہیں ۔ لیکن اس سارے معاملے میں کچھ پہلو چشم کشا ہیں۔ عمران خان نےآفتاب اقبال کے ساتھ اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا کہ انہیں توقع ہی نہیں تھی کہ 21ویں صدی میں بھی کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر حملہ کرسکتا ہے۔ جیسے انہیں توقع نہیں تھی کہ روس یوکرین پر حملہ کرے گا اسی طرح مجھے بھی توقع نہیں تھی کہ ملک کا وزیر اعظم جس کے پاس بے پناہ وسائل اور معلومات کے بے شمار ذرائع موجود ہوں وہ ایسی غلط فہمی کا شکار رہے۔ کیا آئی ایس آئی نے وزیر اعظم کو معلومات نہیں دیں؟ کیا وزارت خارجہ نے وزیر اعظم تک درست تجزیہ اور معلومات نہیں پہنچائیں؟ کیا حساس اداروں نے خطے میں دیگر دوست ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ روابط نہیں کیے؟ میرا خیال ہے وزیر اعظم عمران خان کے پاس تمام ذرائع موجود تھے کہ وہ یہ جان پاتے کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے کیلئے سنجیدہ ہے کہ نہیں ؟ کیا وزارت خارجہ اور عسکری و انٹیلی جنس حکام سے خان صاحب نے کوئی بریفنگ لی؟ کیا وزارت خزانہ اور وزارت منصوبہ بندی کے چیف اکانومسٹ سے کوئی تجزیہ مانگا گیا کہ جنگ کے نتیجہ میں پاکستان کو کن معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے؟ میں یہ سوال اس لیے اٹھا رہا ہوں کہ ان میں سے بہت سوں کے جواب میرے علم میں نہیں ہیں۔ جب حقائق جاننے اور انکے تجزیہ کی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہ کی جائےتو قبل از وقت پیش بندی کہا ں ہوگی؟ جب اسی ویب سائٹ پر کئی کالموں میں اور اپنے یوٹیوب چینل پر وی لاگز میں مجھ جیسا عاجز اور کم علم صحافی اپنی تمام تر کم مائیگی کے باوجود یہ پیشین گوئی کرنے کی جسارت کر رہا تھا کہ یہ حالات پیدا ہونے والے ہیں ۔ میری کئی ویڈیوز میں گیس ، تیل اور خوراک کی ممکنہ کمی کا حوالہ اور ذکر ملتا ہے۔ تو وہ حکام ، جو سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں۔ جن کی ایک اشارہ ابرو پر ریاستی ڈھانچہ ہل کے رہ جاتا ہے۔ جن کے ماتحت افسران کی فوج ظفر موج ہوتی ہے وہ ایسا کیوں نہ کر سکے؟

اور اس سے بھی بڑا ستم یہ کہ پیوٹن عمران خان کے ساتھ اپنی تین گھنٹوں کی میٹنگ میں نقشوں سے سمجھاتے رہے کہ وہ یوکرین پر حملہ کرنے پر کیوں مجبور ہوئے؟
کیا خان صاحب کو بریفنگ نہیں دی گئی؟ کیا ان کو اس سارے معاملے کو سمجھنے کیلئے نوٹس نہیں فراہم کیے گئے وزارت خارجہ کی جانب سے ؟ کیا آئی ایس آئی نے انہیں پیوٹن کی نفسیاتی پروفائل پڑھنے کو دی؟ کیاایم او ڈائریکٹوریٹ سے انہوں نے کریمیا، جارجیا کی جنگوں کے بارے میں اور روسی افواج کی عسکری مشقوں اور یوکرین کی سرحد پر کئی ماہ سے کیے گئے اجتماع پر کوئی تجزیہ ، معلومات یا نقطہ نظر مانگا؟
میرا اندازہ ہے کہ انہیں پیوٹن نے کسی بچے کی طرح سیکیورٹی گارنٹیوں کی ڈیمانڈ سے لے کر مشرقی یورپ میں نیٹو کی توسیع سمیت بہت سے چیزوں پر لیکچر دیا ہوگا۔ کیا پیوٹن جیسا ذہین ، سابق کے جی بی کا افسر ہمارے وزیر اعظم کے بارے میں کوئی اچھی رائے رکھے گا؟ یا ہمارے اداروں کے بارے میں کوئی اچھی رائے رکھے گا کہ جو اپنے وزیر اعظم کی تیاری نہیں کروا سکے اور مکمل معلومات نہیں فراہم کرسکے وہ اور کیا کرتے ہوں گے۔

دیکھیں بہت سے لوگ کہتے چلے آرہے ہیں کہ ہماری حکومتوں میں ، چاہے وہ سول ہوں یا عسکری ، ان میں تزویراتی طرز فکر کو پالیسی سازی کے عمل میں حصہ بنانے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ اکثر عالمی واقعات پر ہماری حکومتیں ری ایکٹو اپروچ رکھتی ہیں کیوں کہ ان میں پری ایمپٹ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ ہماری عسکری اور انٹیلی جنس اداروں میں ٹیکٹیکل لیول پر بہت سی صلاحیتیں موجود ہیں لیکن تزویراتی طرز فکر سے وہ بھی محروم ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے یہ قوم اپنے حکمران طبقے کی جہالت، سہل پسندی، نالائقی، بد فطرتی اور بد دیانتی کا ہمیشہ خمیازہ بھگتتی ہے۔ ابھی شکر کریں کہ بھٹو اور ڈاکٹر قدیر خان جیسی شخصیات نے ایٹم بم بنا دیا۔ ورنہ خدا نخواستہ اگر پاکستان پر کوئی بیرونی قوت حملہ کردیتی تو ان تلوں میں تیل ہی نہیں کہ وہ مقابلہ کرسکتے ۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More