کیلیفورنیا(پاک ترک نیوز) دنیا کے پہلے چہرے کو شناخت کرنیوالے سرچ انجن کو پیٹنٹ مل گیا۔اس سرچ انجن کا پورا نام کلیئر ویو اے آئی ہے جس حال ہی میں قانون نافذ کرنیوالے امریکی اداروں کا اشتراک بھی حاصل ہوا ہے ۔
کمپنی کے مطابق اس کے ڈیٹا میں دس ارب تصاویر موجود ہیں۔ لیکن اس عمل پر انسانی حقوق اور پرائیوسی کے ماہرین نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے زور دیا ہے کہ قانون ساز ادارے نئی ٹیکنالوجی کے تناظر میں لوگوں کی پرائیوسی اور ذاتی معلومات کی حفاظت کریں۔
اگست 2020 میں سرچ انجن کے پیٹنٹ کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے گزشتہ ہفتے پیٹنٹ عطا کی گئی ہے۔ لیکن اب اس کی خاصی بھاری بھرکم فیس ادا کرنا ہوگی۔
کلیئر ویو کے سربراہ ’ہوان تون تھاہ‘ نے کہا ہے کہ یہ ایجاد اپنی نوعیت کا پہلا پلیٹ فارم ہے جو ’ بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ ڈیٹا‘ کو استعمال کرے گا۔ اس ڈیٹا کو چہرے کی شناخت میں استعمال کیا جائے گا۔ اس کے لیے وہ سوشل میڈیا سے اربوں تصاویر کھینچ نکالے گا جسے ڈیٹا سکریپنگ کہتے ہیں۔
اس سرچ انجن کے بارے میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے رکن میٹ محمودی نے کہا ہے کہ اب جس شے کا تحفظ کرنا ہے وہ بہت ہی مشکل عمل ہے۔ اب کمپنیاں اس پر ملکیت جتاری ہے جو بنیادی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہوگی۔
چہرے شناخت کے حوالے سے کئی ممالک اپنے اپنے قوانین بنا چکے ہیں مگر اس کے باوجود 2015سے 2019تک صرف چار برسوں میں چہرے کی شناخت کرنیوالے سرچ انجن کی ہزاروں پیٹنٹ درخواستیں آ چکی ہیں جو اس جانب رجحان میں اضافے کی طرف واضح اشارہ ہیں ۔
کمپنی نے کا کہنا ہے کہ کلیئر ویو سرچ انجن کنزیومر پراڈکٹ نہیں ہے بلکہ اس کے خاص مقاصد ہیں اور اسے شادی ، تعلقات یا کاروبار وغیرہ کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
سرچ انجن کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ اسے کئی امریکی قانون نافذ کرنے والے ادارے استعمال کریں گے۔ ان میں 1803 مختلف ادارے اور ایجنسیاں بھی شامل ہیں جن میں ایف بی آئی، ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ادارے اور دیگر محکمے شامل ہیں۔