تحریر: زبیر بشیر ( بیجنگ )

چین کی جانب سے تیار کردہ ویکسین پر عالمی برادری کی جانب سے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس اعتماد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔ کہ دس سے زائد غیر ملکی سربراہان مملکت یہ ویکسین لگوا چکے ہیں۔ حال میں ترک صدر رجب طیب ایردوان نے بھی چینی ویکسین لگوا لی ہے۔ انڈونیشیا کے صدرنے چین کی تیار کردہ ویکیسن لگوائی۔ اس سے قبل صدرایردوان کے وزیر اعظم سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں نے چین کی ویکسین لگوائی۔ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ پچھلے سال چھبیس ستمبر میں ہی بحرین کے ولی عہد اور وزیر اعظم سلمان بن حماد نے رضاکار کی حیثیت سے تیسرے آزمائشی مرحلے میں چینی ویکسین لگوائی۔ پاکستان کی بہت سی ممتاز سیاسی شخصیات بشمول اعلیٰ حکومتی عہدیداران نے کورونا وائرس کی چینی ساختہ ویکسین لگوائی ہے۔ ان شخصیات میں وفاقی وزیر بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ اور گورنرپنجاب چوہدری محمد سرور اور ان کی اہلیہ بھی شامل ہیں۔ چین میں ویکسین کی تیار اور نگرانی کا نہایت سخت نظام موجود ہے۔ جس نے ویکسین پر عالمی اعتماد کو اور بھی زیادہ بڑھا دیا ہے۔

متحدہ عرب امارات اور بحرین میں رجسٹریشن اور لسٹنگ کی باضابطہ منظوری کے بعد ، تیس دسمبر 2020 کو چین کی سائنو فارم بائیو ٹیک کمپنی کی ویکسین کو اسٹیٹ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے چین میں مشروط طور پر استعمال کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔ اب تک ایک کروڑ سے زائد افراد یہ ویکسین لگوا چکے ہیں۔

حالیہ استعمال سے قبل چین سمیت متحدہ عرب امارات ، بحرین ، مصر اور اردن کی حکومتوں نے سائنو فارم بائیو ٹیک کمپنی کی ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری دی تھی۔ دس سے زائد غیر ملکی سربراہان مملکت اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار چین کی سائنو فارم بائیو ٹیک کمپنی کی تیار کردہ ویکسین لگوا چکے ہیں۔ اس وقت 50 سے زائد ممالک نے چین کی تیار کردہ ویکسین کی خریداری کے حوالے سے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

چین میں ویکسین لگوانے والے ایک کروڑ سے زائد افراد کی سخت نگرانی کی گئی ہے، تاہم کسی بھی شخص میں ویکسین کا کوئی مضر صحت ری ایکشن رپورٹ نہیں ہوا۔ تاہم چند افراد میں ویکسین کے معمولی ردعمل میں انجکشنلگوانے کی جگہ پر درد ، بخار کی شکایت اور معمولی سردرد وغیر کی علامات رپورٹ ہوئی ہیں۔

چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ نے حالیہ جی ٹونٹی سربراہ اجلاس میں شرکت کے موقع پر کہا تھا کہ”ہم اپنے وعدے پورے کریں گے ، دوسرے ترقی پذیر ممالک کو مدد فراہم کریں گے ، اور ویکسین کی فراہمی کو ایک ایسا عوامی منصوبہ بنانے کی کوشش کریں گے جس کا استعمال تمام ممالک کے لوگ کرسکتے ہوں اور اس کی قیمت بھی کم ہو۔ اب ، چین کی ویکسین کی تیاری و تحقیق کی ہموار ترقی سے ، چین کا یہ وژن حقیقت بن چکا ہے۔

بلاشبہ اس وقت دنیا میں وبا کی سنگینی کے تناظر میں اتحاد اور تعاون ہی واحد درست انتخاب ہے کیونکہ دنیا دیکھ چکی ہے کہ عالمگیر وبائی بحران سے کوئی بھی ملک تنہا نہیں نمٹ سکتا ہے ، اگر ایک ملک کے پاس ویکسین دستیاب ہے اور اس کے ہمسایہ ممالک یا دیگر پسماندہ ممالک کی ویکسین تک رسائی نہیں ہے تو اس کا مطلب دنیا بدستور غیر محفوظ ہے کیونکہ اس وبا کے مکمل خاتمے تک کوئی بھی ملک خود کو وبا سے پاک قرار نہیں دے سکتا ہے۔لہٰذا چین کے ساتھ ساتھ دیگر بڑے ممالک کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کے بہترین مفاد میں انسداد وبا کے عالمی تعاون کو موثر طور پر آگے بڑھائیں بالخصوص ویکسین تک عام آدمی کی رسائی یقینی بنائی جائے۔ویکسین کو صرف اپنے ملک تک محدود کرنے یا اسے "قومی پراڈکٹ” کا درجہ دینے میں کسی ملک کا دیرپا فائدہ نہیں ہے بلکہ ویکسین کی عالمگیر دستیابی ہی وبائی بحران سےنکلنے کا واحد راستہ ہے۔اس وقت ویکسین پر سیاست یا اسے منافع کے حصول کا آلہ سمجھنے کی سوچ نہ صرف تباہ کن ہو گی بلکہ بڑے ذمہ دار ممالک کے شایان شان بھی نہیں ہے۔ گزشتہ سال کے اختتام تک اس ویکسین کی دس کروڑ خوراکیں تیار کی گئیں تھیں ، اس سال یہ تعداد ایک ارب تک پہنچنے کی توقع ہے۔

ایک ذمہ دار بڑے ملک کے طور پر چین اپنے وعدوں پر عمل کرتا رہےگا ، اقوام متحدہ اور ڈبلیو ایچ او کے اقدامات کی حمایت کرتا رہے گا ، تمام فریقوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا ، ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کو ترجیح دے گا ، ویکسین کی مناسب ، متوازن اور معقول تقسیم کو فروغ دے گا ، اور مایوسی کے اندھیروں کو امید کی روشنی سے دور کرے گا۔