سلمان احمد لالی
سب سے پہلے ایک حقیقت واضح کرتا چلوں ، چین اس وقت بھی مقبوضہ بھارتی لداخ کے ایک ہزار مربع کلومیٹر رقبہ پر قابض ہے، اور یہ قبضہ سن دوہزار بیس کے مئی میں ہونے والی سرحدی لڑائی کے نتیجے میں ہوا ۔ اس میں پینگانگ تسو نامی علاقہ بھی شامل ہے جہاں مشہور زمانہ پینگانگ جھیل موجود ہے جو اکثر بھارتی فلموں میں دکھائی جاتی تھی۔ آپ کو یاد تو ہوگا جب تھری ایڈیٹس فلم میں کرینہ کپور دلہن کے لباس میں سر پر بوسیدہ ہیلمٹ پہنے اسکوٹر پر پینگانگ جھیل کی سفید خشک پٹی پر آتی ہے اور عامر خان اسے دیکھ کر دم بخود رہ جاتا ہے۔
آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ یش چوپڑہ کی زندگی کی آخری فلم ،جب تک ہے جان، میں شاہ رخ خان اسی جھیل کی اسی سفید پٹی پر ایک سیکوئنس میں نظر آتا ہے ، یہ سین انٹرول کے بعد دکھایا گیا ہے۔ کیایہ بات حیران کن نہیں کہ یہ جھیل اب چین کے قبضے میں ہے اور شاید مستقبل قریب میں کوئی اور فلم یہاں پر فلمائی نہیں جاسکے گی، کم از کم بھارتی فلم تو بالکل نہیں۔ اگر چین نے کوئی اپنی فلم وہاں شوٹ کرنے کی اجازت دی تو اور بات ہے۔
اب آتے ہیں سب سے تازہ ترین خبر کی جانب جس کے مطابق پینگانگ تسو میں چین نے ایک نیا سرویلنس ریڈوم بنایا ہے۔اور اسکی خلائی تصاویر بھارتی حکام پر بجلی بن کر گری ہیں۔ ریڈوم ایک ایسا ریڈار ہے جس پر بڑا گنبد نما ڈھانچا ہوتا ہے جو ریڈار کو خراب موسم سے بچاتا ہےا ور برقی مقناطیسی سگنلزکو بغیر کسی مسئلے کے ریڈار تک پہنچنے دیتا ہے۔
یہ علاقہ مشرقی لداخ میں ہے اور یہ تنصیب پینگانگ جھیل کے اردگرد ہی تعمیر کیا گیا ہے۔ اسے کہتے ہیں زخموں پر نمک بلکہ سرخ مرچ چھڑکنا۔ تصاویر میں سولر پینلز اور ریڈار ویو شیڈ کو دیکھا جاسکتا ہے جو مشرقی لداخ میں اہم ترین علاقوں کی برقی و مقناطیسی نگرانی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
ریڈوم کی تعمیر دوہزار بیس میں ہونے والی سرحدی لڑائی کے دو سال بعد ہوئی ہے ۔جہاں بھارت کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔ بھارت اور چین گزشتہ برس سے مزاکرات کے ذریعے ڈس انگیج کرنے اور اسٹیٹس کو کو بحال کرنے پر باہمی اتفاق کیا تھا لیکن اب یہ عمل تعطل کا شکار ہے۔
اس سال جنوری میں اس مشہور زمانہ پینگانگ جھیل پر ایک پل بھی بنایا۔اس سے پہلے جب چین اور بھارت کے درمیان مذاکرات پر تعطل جاری تھا تو چین نے کئی اہم ٹاپس پر سڑک کی تعمیر مکمل کرلی۔
رواں برس میں مئی میں چین پینگانگ تسو پر دوسرا پل تعمیر کیا جس پر بکتر بند کالم لے جائے جاسکتے ہیں۔
میں یہاں پر قارئین کی توجہ اپنے پچیس اگست کو شائع ہونے والے اپنے کالم ، جب بھارت ٹوٹ جائے گا، کی جانب دلواوں گا جس میں چین کی حالیہ برسوں میں عسکری میں میدان میں ترقی اور بھارت کی موجودہ صورت حال کو تفصیلا بیا ن کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو چین کا عسکری لحاظ سے مقابلہ کرنے کے قابل ہونے کیلئے پندرہ برس کا عرصہ اور اربوں ڈالر چاہییں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے قریب امریکہ اور بھارت جلد فوجی مشقیں کرنے جارہے ہیں جن کا نام یدھ ابھیاس ہے۔ ان مشقوں میں بھارتی سینا کو امریکی فوجی سرد علاقوں اور بلندی پر جنگ کی تربیت دیں گے۔ لیکن چین کے ساتھ جنگ کیلئے صرف یہ مشقیں شاید ناکافی ثابت ہوں۔
بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعہ کافی پرانا ہے جس پر بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور چین کے وزیر اعظم چو این لائی نے سمجھوتے کی کوشش کی لیکن سن انیس سو باسٹھ کی اکسائی چن کی جنگ اور اس سے قبل بھارت کی جانب سے دلائی لامہ کو پناہ دینے کے عمل نے ایسا ڈیڈلاک پیدا کیا جو اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بگڑ رہا ہے۔
اسکے برعکس پاکستان نے انیس سو تریسٹھ میں چین کے ساتھ سرحدی معاہدہ کرکے ایسی دوستی کی بنیاد رکھی جو اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی سب سے بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ اور تعلق ایسا کہ شاید چین جیسا دوست پاکستان کوئی اور نہیں ہے۔ حتیٰ کہ کوئی مسلمان ملک بھی اس درجہ کی تعلق نہیں پہنچتا۔
واپس چلتے ہیں لداخ کی جانب ، بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال کے مطابق شاید مذاکرات کے ذریعے لداخ کا مسئلہ حل کرلیا جائے گا۔ اسکے علاوہ بھارتی منصوبہ ساز چین کےساتھ جنگ جیسی صورتحال پیدا کرنے سے پہلے کم از کم پندرہ سال تک کا وقت چاہتے ہیں۔ جو انہیں سست رو سفارتکاری کے ذریعے مل سکتا ہے۔
دوسری جانب ایشیا سوسائٹی کے صدر اور آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم کیون رڈ نے بھارتی میڈیا سے بات کرتے ہوئے حال ہی میںکہا کہ شی جن پنگ بھارت کے سات کسی بھی قسم کا سفارتی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔اور نہ ہی وہ تائیوان اور ساوتھ چائنا سی کے حوالے سے کسی لچک کا مظاہرہ کریں گے۔
تاہم شی جنگ پنگ بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعہ کو ختم کرنے کیلئے کوئی تزویراتی فیصلہ کرسکتے ہیں جس کا امکان کم ازکم اگلے پانچ سال تک تو نہیں ہے۔ اس دوران ایک اور سرحدی لڑائی ممکن ہے۔
جو شاید فیصلہ کن نوعیت کی ہو۔
یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت نے اپنی دفاعی حکمت عملی کو بدلنے کا آغاز کردیا ہے کیوں کہ اسکو احساس ہو چکا ہے کہ بھارت کا سب سے بنیادی اسٹریٹجک چیلنج چین ہی ہے۔ میدان جنگ کوئی سا بھی ہو، چاہے کشمیر ہو، لداخ ہو یابحر ہند میں کوئی تنازع ہو ، اصل چیلنج چین ہے۔
میرا ماننا ہے کہ چین جیسے عظیم ملک کو چند ہزار مربع کلو میٹر رقبہ کی ضرورت نہیں ہے۔اس مسئلے کا بالواسطہ تعلق پاکستان، کشمیر اور سی پیک سے ہے۔ چین کی تزویراتی فکر میں لداخ کی اہمیت کیا ہے۔ اس پر آئندہ کالم میں بات کریں گے۔
لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کو اپنی تزویراتی ضروریات اور تقاضوں کا علم ہے؟گزشتہ چند ماہ میں پیش آنے والے حالات سے ایک شہری کے اس حوالے سے اعتما د میں کمی آئی ہے۔ بہت جلد پاکستان کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کی تزویراتی سمت واضح کرکے بیان کرنا پڑے گی۔ابہام کا فائدہ دشمن کو ہوگا۔