ڈپٹی سپیکر رولنگ کیس ،عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا ،پونے چھ بجے سنایا جائے گا

اسلام آباد (پاک ترک نیوز) سپریم کورٹ میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف پرویز الہی کی درخواست پر سماعت مکمل کرلی ۔ عدالت نے اس پر فیصلہ محفوظ کرلیا ۔فیصلہ شام پونے چھ بجے سنایا جائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی رولنگ کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالتی بائیکاٹ کرنے والے شائستگی کا مظاہرہ کریں، عدالتی کارروائی سنیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے تمام وکلا کو تفصیل سے سن لیا ۔ عدالت کچھ دیر میں دوبارہ واپس آئے گی۔ منصور اعوان نے بہت اچھے طریقے سے عدالت کی معاونت کی۔
ڈپٹی سپیکر کے وکیل عرفان قادر عدالت میں پیش ہوئے اور حکومتی بائیکاٹ سے متعلق بتایا کہ مجھے کہا گیا ہے عدالتی کارروائی کا مزید حصہ نہیں بنیں گے، ہم فل کورٹ درخواست مسترد کرنے کے حکم کیخلاف نظر ثانی دائر کرینگے۔
یہ کہہ کر عرفان قادر سپریم کورٹ سے واپس چلے گئے۔ وکیل فاروق ایچ نائیک پیش ہوئے اور کہا کہ پی پی پی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا، ستمبر کے دوسرے ہفتے سے پہلے ججز دستیاب نہیں، گورننس اور بحران کے حل کیلئے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں، آرٹیکل 63 اے کے مقدمہ میں پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کا کوئی ایشو نہیں تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت کے سامنے 8 جج کے فیصلہ کا حوالہ دیا گیا، آرٹیکل 63 اے سے متعلق 8 ججز کا فیصلہ اکثریتی نہیں ہے، جس کیس میں 8 ججز نے فیصلہ دیا وہ 17 رکنی بینچ تھا، آرٹیکل 63 سے فیصلہ 9 رکنی ہوتا تو اکثریتی کہلاتا، فل کورٹ بنچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں ہے، کیا سترہ میں سے آٹھ ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہو سکتی ہے؟۔
عدالتی بائیکاٹ کرنے والے شائستگی کا مظاہرہ کریں، عدالتی کارروائی سنیں۔
چیف جسٹس نے پرویز الہی کے وکیل علی ظفر کو ہدایت کی کہ قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کریں، دوسرا راستہ ہے کہ ہم بینچ سے الگ ہو جائیں، عدالتی بائیکاٹ کرنے والے گریس (شائستگی) کا مظاہرہ کریں، بائیکاٹ کردیا ہے تو عدالتی کارروائی کو سنیں، دوسرے فریق سن رہے ہیں لیکن کارروائی میں حصہ نہیں لے رہے، اس وقت انکی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے اقوام متحدہ میں مبصر ممالک کی ہوتی ہے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More