ترک نائب وزیر خارجہ فاروق کیماکجی نے کہا ہے کہ اگر ترکی کو یورپین یونین کا ممبر بنایا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف ترکی بلکہ یورپی بلاک کو بھی فائدہ ہو گا۔
ٹی آر ٹی ورلڈ فورم کے سیمینار "کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد مختلف مممالک کے تعلقات اور نئے حقائق” سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نئے چیلنجز کے ساتھ ساتھ ترک خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں۔
ترکی نے یورپین یونین کی رکنیت کے لئے 1985 میں درخواست دی تھی اور اس پر مذاکرات 2005 میں شروع ہوئے تھے۔ 2007 میں یونانی قبرص کی طرف سے ایک جزیرے کی ملکیت کے تنازعے کے باعث فرانس اور جرمنی نے ترکی کی ممبرشپ کی مخالفت کی جس کے بعد سے اب تک دوبارہ مذاکرات شروع نہیں ہو سکے۔
ترک نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ ترکی یورپ کا حصہ ہے لیکن یورپین یونین کی طرف سے اسے خاص حمایت حاصل نہیں ہوئی ہے۔
اس سال اکتوبر میں یورپین یونین نے ترکی سے یونان اور یونانی قبرص کے مطالبات تسلیم کرنے کو کہا لیکن یہ مطالبات کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں۔
ترکی نے یونان اور یونانی قبرص کو مذاکرات کی دعوت دی ہوئی ہے تاکہ بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کیا جائے۔ یونان ترک مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے عنان پلان کی بھی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے جزیروں کے حقوق کی ملکیت اس طرح نہیں ہیں جس طرح آئیجن اور مشرقی بحیرہ روم کے حقوق ہیں۔
ترک نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ ترکی تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں ہے لیکن یونان مسلسل مذاکرات سے بھاگ رہا ہے۔ اگر یورپین یونین اس تمام صورتحال کو جانتے ہوئے بھی اپنی آنکھیں بند رکھتا ہے تو اس کا نقصان نہ صرف ترکی بلکہ پورے یورپ کو بھی ہو گا۔
سابقہ پوسٹ