از سہیل شہریار
روس اوریوکرین کےدرمیان جاری جنگ کے 500 دن پورےہو گئے ہیں اور اس جنگ نے دونوں متحارب ملکوں سمیت عالمی معیشت کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔اس عرصے میںجہاںعالمی منڈی میں اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے عالمی سطح پر منفی اقتصادی اثر پڑا وہیں توانائی کے شعبے میں بھی روس کی گیس اور تیل پر پابندیوں کے شدید اثرات دیکھنے میں آئے ۔
500 دنوں کے دوران، روس نے فوجی اخراجات میں اضافہ کیا اور خاص طور پر مغربی ممالک سے پابندیوں اور تجارتی پابندیوں سے متعلق مشکلات کا سامنا کیاروس کے مرکزی بینک کے ذخائر جن کی مالیت 300 بلین یورو یا326.6 بلین ڈالر ہے۔ جنگ کے آغاز کے بعد سے یورپی یونین، جی 7 ممالک اور آسٹریلیا نےمنجمد کر رکھے ہیں۔اس کے علاوہ مئی میں یورپی کونسل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق روسی بینکنگ سسٹم کے 70 فیصد اثاثے اور 1500 سے زائد افراد اور اداروں کے تقریباً 20 بلین یورو کے اثاثے مغربی پابندیوں کی زد میں ہیں۔کونسل نے کہا کہ اگرچہ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں روس کے لیے 2022 کی پہلی ششماہی میں مثبت تھیں۔ لیکن تیل کی درآمدات کو نشانہ بنانے والی پابندیوں کے نتیجے میں روس کی آمدنی محدود ہو گئی ہے۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2023 میں روس کی تیل کی آمدنی میں سالانہ بنیادوں پر ایک سہ ماہی سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی اور فروری میں یہ کمی 40 فیصد سے زیادہ تھی۔
عالمی اداروں، جیسے کہ عالمی بینک، اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم اور آئی ایم ایف کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ روسی معیشت 2022 میں 2.1 فیصد کم ہو گئی ہے اور 2023 میں بھی یہ سکڑاؤ جاری رہ سکتا ہے۔2023 کے لیے درآمدات میں اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے جبکہ برآمدات میں کمی کی توقع ہے۔2022 میں مجموعی طور پر برآمدات 588.3 بلین ڈالر تھیں۔ جبکہ 2023 میں یہ 465.9 بلین ڈالر، 2024 میں 484 بلین ڈالر اور 2025 میں496.2 بلین ڈالررہنے کی توقع ہے۔
روس کی درآمدات گزشتہ سال 280.4 بلین ڈالر تھیں۔ اور 2023 میں 313.8 بلین ڈالر، اگلے سال 332.8 بلین ڈالر اور 2025 میں 347.4 بلین ڈالر تک بڑھنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
24 فروری 2022 کو روس کی جانب سےامریکہ کی سربراہی میں نیٹو اتحاد پر توسیع پسندانہ عزائم کے تحت یوکرین سے پینگیں بڑھانے کو اپنے لئے براہ راست خطرہ قراردیتے ہوئےیوکرین کے خلاف "خصوصی فوجی آپریشن” شروع کرنے کے بعد، بہت سے مغربی ملکوںاورکمپنیوں نے روسی معیشت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے اس پر پابندیاں لگانے کااعلان کیا۔اسی طرح کچھ کمپنیوں نے روس میں آپریشن اور ڈیلیوری بند کر دی، جب کہ دیگر نے روس اور بیلاروس میں سرمایہ کاری ختم کر دی یا شراکتیں واپس لے لیں۔نتیجتاً روس کی صنعتی پیداوار 2022 میں 0.6 فیصد کم ہوئی۔ جبکہ خوردہ تجارتی کاروبار میں سالانہ بنیادوں پر 6.7 فیصد کمی ہوئی۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کے اعداد و شمار کے مطابق روس کے حکومتی بجٹ میں قومی دفاعی بجٹ کا حصہ 2021 میں 20 فیصد، 2022 میں 21 فیصد اوراب 23 فیصد سے بڑھ گیاہے۔اسی طرح جی ڈی پی میں قومی دفاعی بجٹ کا حصہ بھی 2021 میں 3.6 فیصد سے بڑھ کر 2023 میں 4.4 فیصد ہو گیا۔چنانچہ2023 کے لیے قومی دفاعی بجٹ 4.98 ٹریلین روبل یعنی54.7 بلین ڈالر رکھا گیا ہے۔
روس کے غیر فوجی اخراجات کے حوالے سے سپری کی رپورٹ کے مطابق روس نے ستمبر 2022 میں ڈونیٹسک اور لوہانسک کے علاقوں اور کھیرسن اور زپوریزہیا اوبلاستوں کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا تھا۔اس نے 2024-2026 تک 1.88 ٹریلین روبل نئے الحاق شدہ علاقوں کے لیے ریاستی اداروں پر خرچ کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔انفراسٹرکچر سے لے کر صحت اور تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کے لئے روس کو آنے والے سالوں میں ان خطوں کے لیے اربوں روبل خرچ کرنے ہوں گے۔
یوکرین کا ذکر کیا جائے تو اسکی معیشت سالانہ بنیادوں پر،2021 میں 3.4 فیصد اضافے کے بعد 2022 میں 29.1 فیصد سکڑ گئی۔
2022 میں غربت 5.5 فیصد سے بڑھ کر 24.2 فیصد ہو گئی۔ جس نےمزید 7.1 ملین افراد غربت میں دھکیل دئیے ہیں۔
جنگ کی وجہ سے ملک کی معیشت کو شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اور اس نے سیاحت، پیداوار، زراعت، توانائی اور نقل و حمل سمیت کئی شعبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، ضروری صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کی خدمات کو 83 بلین ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے اور ان تینوں شعبوں میں تعمیر نو اور بحالی کی ضروریات کا تخمینہ تقریباً 69 بلین ڈالر لگایا گیاہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ عالمی بینک نے پہلے اندازہ لگایا تھا کہ ملک کو مجموعی بحالی اور تعمیر نو کے لیے 400 بلین ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہے۔
سینٹر فار ڈیزاسٹر فلانتھراپی کا کہنا ہے کہ اس سال تقریباً 40 فیصد یوکرینی آبادی یا 17.6 ملین افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ جن میں سے 45 فیصد خواتین اور 23 فیصد بچے ہیں۔اسی ضمن میںاقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کاتخمینہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں 4 ملین سے زیادہ یوکرائنی مہاجرین کو پڑوسی ممالک میں تحفظ اور مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یوکرین کی تمام تر معیشت امریکہ اور اتحادیوں کی امداد کے ذریعے چل رہی ہے۔کیل انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق مئی کے آخر تک، یوکرین کے لیے تمام ریکارڈ شدہ وعدوں کی رقم 165بلین ڈالر تھی، جس میں فوجی، مالی اور انسانی امداد شامل ہے۔ سپری کے مطابق یوکرین کے فوجی اخراجات 2022 میں 7.4 گنا بڑھ کر 44 بلین ڈالرتھے جو کہ ملک کی جی ڈی پی کا 34 فیصد تھا۔جبکہ رواں سال کے لئے فوجی اخراجات یوکرین کو ایف۔16سمیت دیگر جدید ہتھیاروں اور گولہ بارود کی فراہمی کی صورت میں دوگنا تک بڑھ کر 70بلین ڈالر تک پہنچ جانے کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔
پانچ سو دنوں سے جاری اس جنگ کے حوالے اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی آزادی کی جنگ ہے ؟ کیا واقعی روس کو نیٹو کے اپنی سرحد کے ساتھ تک بڑھ آنے سے قومی سلامتی سے وابستہ خطرات لاحق تھے۔ یا یہ کہ یہ جنگ اب روس بمقابلہ امریکہ اور اسکے اتحادی ہے جس میں مغربی اتحادیوں کی جانب سے یوکرین کو بھاڑے کا ٹٹوبنا کر استعمال کیا جا رہا ہے۔اور سب سے اہم یہ کہ کیا اس جنگ کا کوئی نتیجہ بھی نکلے گا؟
روس یوکرین جنگ کے 500دن
از سہیل شہریار
روس اوریوکرین کےدرمیان جاری جنگ کے 500 دن پورےہو گئے ہیں اور اس جنگ نے دونوں متحارب ملکوں سمیت عالمی معیشت کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔اس عرصے میںجہاںعالمی منڈی میں اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے عالمی سطح پر منفی اقتصادی اثر پڑا وہیں توانائی کے شعبے میں بھی روس کی گیس اور تیل پر پابندیوں کے شدید اثرات دیکھنے میں آئے ۔
500 دنوں کے دوران، روس نے فوجی اخراجات میں اضافہ کیا اور خاص طور پر مغربی ممالک سے پابندیوں اور تجارتی پابندیوں سے متعلق مشکلات کا سامنا کیاروس کے مرکزی بینک کے ذخائر جن کی مالیت 300 بلین یورو یا326.6 بلین ڈالر ہے۔ جنگ کے آغاز کے بعد سے یورپی یونین، جی 7 ممالک اور آسٹریلیا نےمنجمد کر رکھے ہیں۔اس کے علاوہ مئی میں یورپی کونسل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق روسی بینکنگ سسٹم کے 70 فیصد اثاثے اور 1500 سے زائد افراد اور اداروں کے تقریباً 20 بلین یورو کے اثاثے مغربی پابندیوں کی زد میں ہیں۔کونسل نے کہا کہ اگرچہ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں روس کے لیے 2022 کی پہلی ششماہی میں مثبت تھیں۔ لیکن تیل کی درآمدات کو نشانہ بنانے والی پابندیوں کے نتیجے میں روس کی آمدنی محدود ہو گئی ہے۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2023 میں روس کی تیل کی آمدنی میں سالانہ بنیادوں پر ایک سہ ماہی سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی اور فروری میں یہ کمی 40 فیصد سے زیادہ تھی۔
عالمی اداروں، جیسے کہ عالمی بینک، اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم اور آئی ایم ایف کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ روسی معیشت 2022 میں 2.1 فیصد کم ہو گئی ہے اور 2023 میں بھی یہ سکڑاؤ جاری رہ سکتا ہے۔2023 کے لیے درآمدات میں اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے جبکہ برآمدات میں کمی کی توقع ہے۔2022 میں مجموعی طور پر برآمدات 588.3 بلین ڈالر تھیں۔ جبکہ 2023 میں یہ 465.9 بلین ڈالر، 2024 میں 484 بلین ڈالر اور 2025 میں496.2 بلین ڈالررہنے کی توقع ہے۔
روس کی درآمدات گزشتہ سال 280.4 بلین ڈالر تھیں۔ اور 2023 میں 313.8 بلین ڈالر، اگلے سال 332.8 بلین ڈالر اور 2025 میں 347.4 بلین ڈالر تک بڑھنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
24 فروری 2022 کو روس کی جانب سےامریکہ کی سربراہی میں نیٹو اتحاد پر توسیع پسندانہ عزائم کے تحت یوکرین سے پینگیں بڑھانے کو اپنے لئے براہ راست خطرہ قراردیتے ہوئےیوکرین کے خلاف "خصوصی فوجی آپریشن” شروع کرنے کے بعد، بہت سے مغربی ملکوںاورکمپنیوں نے روسی معیشت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے اس پر پابندیاں لگانے کااعلان کیا۔اسی طرح کچھ کمپنیوں نے روس میں آپریشن اور ڈیلیوری بند کر دی، جب کہ دیگر نے روس اور بیلاروس میں سرمایہ کاری ختم کر دی یا شراکتیں واپس لے لیں۔نتیجتاً روس کی صنعتی پیداوار 2022 میں 0.6 فیصد کم ہوئی۔ جبکہ خوردہ تجارتی کاروبار میں سالانہ بنیادوں پر 6.7 فیصد کمی ہوئی۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کے اعداد و شمار کے مطابق روس کے حکومتی بجٹ میں قومی دفاعی بجٹ کا حصہ 2021 میں 20 فیصد، 2022 میں 21 فیصد اوراب 23 فیصد سے بڑھ گیاہے۔اسی طرح جی ڈی پی میں قومی دفاعی بجٹ کا حصہ بھی 2021 میں 3.6 فیصد سے بڑھ کر 2023 میں 4.4 فیصد ہو گیا۔چنانچہ2023 کے لیے قومی دفاعی بجٹ 4.98 ٹریلین روبل یعنی54.7 بلین ڈالر رکھا گیا ہے۔
روس کے غیر فوجی اخراجات کے حوالے سے سپری کی رپورٹ کے مطابق روس نے ستمبر 2022 میں ڈونیٹسک اور لوہانسک کے علاقوں اور کھیرسن اور زپوریزہیا اوبلاستوں کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا تھا۔اس نے 2024-2026 تک 1.88 ٹریلین روبل نئے الحاق شدہ علاقوں کے لیے ریاستی اداروں پر خرچ کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔انفراسٹرکچر سے لے کر صحت اور تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کے لئے روس کو آنے والے سالوں میں ان خطوں کے لیے اربوں روبل خرچ کرنے ہوں گے۔
یوکرین کا ذکر کیا جائے تو اسکی معیشت سالانہ بنیادوں پر،2021 میں 3.4 فیصد اضافے کے بعد 2022 میں 29.1 فیصد سکڑ گئی۔
2022 میں غربت 5.5 فیصد سے بڑھ کر 24.2 فیصد ہو گئی۔ جس نےمزید 7.1 ملین افراد غربت میں دھکیل دئیے ہیں۔
جنگ کی وجہ سے ملک کی معیشت کو شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اور اس نے سیاحت، پیداوار، زراعت، توانائی اور نقل و حمل سمیت کئی شعبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، ضروری صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کی خدمات کو 83 بلین ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے اور ان تینوں شعبوں میں تعمیر نو اور بحالی کی ضروریات کا تخمینہ تقریباً 69 بلین ڈالر لگایا گیاہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ عالمی بینک نے پہلے اندازہ لگایا تھا کہ ملک کو مجموعی بحالی اور تعمیر نو کے لیے 400 بلین ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہے۔
سینٹر فار ڈیزاسٹر فلانتھراپی کا کہنا ہے کہ اس سال تقریباً 40 فیصد یوکرینی آبادی یا 17.6 ملین افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ جن میں سے 45 فیصد خواتین اور 23 فیصد بچے ہیں۔اسی ضمن میںاقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کاتخمینہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں 4 ملین سے زیادہ یوکرائنی مہاجرین کو پڑوسی ممالک میں تحفظ اور مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یوکرین کی تمام تر معیشت امریکہ اور اتحادیوں کی امداد کے ذریعے چل رہی ہے۔کیل انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق مئی کے آخر تک، یوکرین کے لیے تمام ریکارڈ شدہ وعدوں کی رقم 165بلین ڈالر تھی، جس میں فوجی، مالی اور انسانی امداد شامل ہے۔ سپری کے مطابق یوکرین کے فوجی اخراجات 2022 میں 7.4 گنا بڑھ کر 44 بلین ڈالرتھے جو کہ ملک کی جی ڈی پی کا 34 فیصد تھا۔جبکہ رواں سال کے لئے فوجی اخراجات یوکرین کو ایف۔16سمیت دیگر جدید ہتھیاروں اور گولہ بارود کی فراہمی کی صورت میں دوگنا تک بڑھ کر 70بلین ڈالر تک پہنچ جانے کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔
پانچ سو دنوں سے جاری اس جنگ کے حوالے اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی آزادی کی جنگ ہے ؟ کیا واقعی روس کو نیٹو کے اپنی سرحد کے ساتھ تک بڑھ آنے سے قومی سلامتی سے وابستہ خطرات لاحق تھے۔ یا یہ کہ یہ جنگ اب روس بمقابلہ امریکہ اور اسکے اتحادی ہے جس میں مغربی اتحادیوں کی جانب سے یوکرین کو بھاڑے کا ٹٹوبنا کر استعمال کیا جا رہا ہے۔اور سب سے اہم یہ کہ کیا اس جنگ کا کوئی نتیجہ بھی نکلے گا؟