کیا روس پر امریکی پابندیاں بے اثر ہیں؟

 

 

 

سلمان احمد لالی

تقریبا ایک دہائی سے روس اور چین نے اپنی معیشتوں کا ڈالر پر انحصار کم کرنے کی پالیسی کو اپنا رکھا ہے۔ڈالر کہنے کو ایک کرنسی ہے لیکن اسنے پوری دنیا کی معیشت کو مکڑی کے جالے کی طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بیشتر ادائیگیاں ڈالر کے ذریعے ہو تی ہیں، تقریبا تمام ممالک کے سینٹرل بینک اپنے اثاثہ جات میں ڈالرز کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو ملکی ضروریات کے تحت درآمدات کیلئے ادائیگیوں میں استعمال ہوتا ہے۔ڈالر کے موجودہ حیثیت امریکہ کو یہ اختیار عطا کرتی ہے کہ وہ دوسرے ممالک پر معاشی پابندیا ں عائد کرسکے اسکے علاوہ امریکہ کی معاشی اور مالیاتی پالیسیاں بھی پوری دنیا کی مارکیٹس پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اسی لیے امریکہ میں جنم لینے والا کوئی بھی بحران دنیا بھرکی معیشت میں بھونچال پرپا کردیتا ہے۔ یاد کیجئے جب 2007میں امریکی ہاوسنگ ببل پھوٹا اور امریکی بینک لیہمن برادرز نے بینکرپسی ڈیکلئیر کی تو اسکے دنیا بھر پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ لیکن یہ ڈالر ہی امریکہ کو اسکی موجودہ طاقت عطا کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو کسی اور ملک کے پاس نہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ روس اور چین کی جانب سے ڈی ڈالرائزیشن کے عمل سے ڈالر پر انحصار کم کرنے کی پالیسی کو اپنا یا ہے۔ یعنی یہ دونوں ملک دیگر ممالک کے ساتھ اپنی تجارت میں ڈالر کے ساتھ ساتھ اپنی کرنسیاں اور دیگر کرنسیاں جیسے یورو کو بھی استعمال میں لارہے ہیں۔ گوکہ یوآن اور روبل کی عالمی منڈیوں میں وہ مانگ نہیں ہے جو ڈالر کی ہے لیکن ماسکو اور بیجنگ کی جانب سے اس پر تیزی سے کام کیا جارہا ہے جس سے عالمی سطح پر امریکہ کے اثرونفوذ میں کمی آئے گی اور اسکی مالیاتی پابندیاں عائد کرنے کی صلاحیت متاثر ہوگی۔
ڈالر کا عالمی معیشت میں کردار:
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ڈالر دنیا سب سے طاقتور ریزرو کرنسی ہے۔ جس کی بڑی مقدار دنیا کے تمام سینٹرل بینکو ں میں بطور ریزرو رکھی جاتی ہے۔ بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کیلئے ڈالر کو ہی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ بین الاقوامی معیشت اور مالیاتی نظام میں ڈالر کو وہ حیثیت حاصل ہے جو انسانی جسم میں دل کو حاصل ہے۔ یہ اس اعتماد کا مظہر ہے جو دنیا کو امریکی فیڈرل ریزرو بینک اور امریکی معیشت پر ہے۔ یہ ہی وہ ٹول ہے جس نے امریکہ کو عالمی معیشت اور مالیاتی نظام میں قیادت کے منصب پر فائز کر رکھا ہے۔امریکہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ڈالر کی بنیا د پر کھڑے اس عالمی مالیاتی نظام سے کسی بھی ملک کو کاٹ دے جس سے اس ملک کی معیشت تباہ ہوکر رہ جاتی ہے۔یہ ٹول واشنگٹن کی جانب سے اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف کے حصول کیلئے بارہا استعمال کیا گیا ہے۔ کرنا صرف یہ ہے کہ اس ملک کو امریکی مالیاتی اور ترسیل زر کے نظام کو استعمال کرنے سے روک دے جو بین الاقوامی ٹرانزکشن کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
لیکن امریکی کرنسی اور مالیاتی نظام کی پوری دنیا پر جکڑ بندی سے بچنے کیلئے اور امریکی پابندیوں کے اثرات کو کم سےکم کرنے کیلئے روس اور چین جیسے ملک متبادل نظام کی تشکیل کرنے میں مصروف ہیں۔ چین کا ذکر پھر سہی ، فی الحال میں روس کے اقدامات کے بارے میں قارئین کو بتانا چاہتا ہوں جس پر تازہ امریکی پابندیوں کی تلوار لٹک رہی ہے۔
روس کی ڈی ڈالرائزیشن اسٹریٹیجی:
روس کا امریکی ڈالر کے شکنجے سے نکلنے خواب بہت پرانا ہے ، لیکن اسکی تعبیر کا آغاز 2010کے بعد ہوا جب امریکہ نے کریمیا پر روسی قبضے کے بعد ماسکو پر پابندیا ں عائد کردیں۔ جس کے بعد کے سالوں میں کئی بار ان پابندیوں کی توسیع کی گئی۔ جس کے بعد صدر ولادیمیر پیوٹن نے موجودہ اور مستقبل میں کسی بھی امریکی پابندیوں کے بے اثر کرنے کی حکمت عملی طے کرنے کا حکم دیا۔روس نے ابھی تک تین جہتوں میں اس عمل کا آغاز کیا۔ پہلے نمبر پر روسی سینٹرل بینک نے اپنے اثاثہ جات میں سے ڈالر ز کی تعداد کو کم کرنا شروع کیا۔ 2013میں ڈالربیسڈ اثاثہ کی تعداد کم ہو کر نصف رہ گئی۔ اور گزشتہ برس روسی وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ روس کے 186ارب ڈالر مالیت کے ویلتھ فنڈ سے ڈالر ڈومینیٹڈ اثاثے مکمل طور پر ختم کردیے جائیں گے۔
دوسرے نمبر پر روس نے غیر ملکی تجارت کیلئے ڈالر پر انحصار کم کردیا ہے۔ اور اس مقصدکیلئے ماسکونے چین، انڈیا،ترکی اور یوریشین اکنامک یونین کے ممبر ممالک کے ساتھ ڈالر کے علاوہ کسی اور کرنسی میں ادائیگیوں کیلئے معاہدے کیے ہیں۔روس کی انرجی کمپنیوں نے بھی یورو اور روبل میں ادائیگیوں اور وصولیوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ان اقدامات کی وجہ ڈالر پر روسی معیشت کا انحصار کم کرنے میں مدد ملی ہے۔
مثال کے طور پر2013میں برکس ممالک یعنی برازیل ، چین اور انڈیا وغیرہ کے ساتھ دوطرفہ تجارت کا 95فیصد ڈالر کے ذریعے کیا گیالیکن 2020میں یہ کم ہو کر صرف 10فیصد تک رہ گیا۔ گو کہ روس کی نصف ایکسپورٹس کی ادائیگیاں ابھی بھی ڈالر میں ہوتی ہیں لیکن روسی اقدامات سے اس میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔
تیسرے نمبر پر روس نے ادائیگیوں اور وصولیوں کیلئے ایک نظام میر کے نام سے وضع کیا ہے۔ جو کہ موجودہ ڈالر بیسڈ پیمنٹ نظام کا متبادل ہے۔ یہ قدم 2015میں اس وقت اٹھایا گیا امریکی کمپنیوں نے روسی بینکوں کو مالیاتی پابندیوں کے باعث سروس دینے سے انکار کردیا۔
اسی طرح ماسکو نے اپنا مالیاتی پیغام رسانی کا نظام بھی بنانے پر مجبور ہوگیا جب روسی بینکو ں کو موجودہ سوفٹ نامی نظام سے منقطع کردیا گیا۔ روس نے میر اور SFPSنامی فنانشل میسیجنگ نظام کوآرمینیا، ترکی اور ازبکستان میں بھی متعارف کروایا ہے۔ اسکے علاوہ 23 غیر ملکی بینک بھی اس نظام سے منسلک ہو چکے ہیں۔اسکے علاوہ روسی سنٹرل بینک اپنی ڈیجیٹل کرنسی بھی ایشو کرنے پر غور کررہا ہے جس سے ڈالر پر انحصار مزید کم ہوگا۔
اسکے باوجود روس ڈالر پر کسی حد تک انحصار کرنے پر مجبور رہے گا اور روسی سینٹرل بینک ڈالر کو اپنے اثاثہ جات میں شامل رکھے گا۔لیکن جس رفتار سے امریکہ پابندیوں کو خارجہ پالیسی کے اہداف کے حصول کیلئے استعمال کر رہا ہے ، کچھ بعید نہیں کے آنے والی دہائیوں میں مزید ملک اس روش کا اپنا لیں جس سے امریکہ کی عالمی حیثیت میں کمی آئےگی۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More