تحریر:سلمان احمد لالی
جنگ بلا شبہ ایک مہنگا کاروبار ہے سامان حرب سے لے کر لڑائی میں ہونے والی تباہی سمیت اس پر اٹھنے والا خرچ ہم جیسے ترقی پذیر ممالک کیلئے سوچ سے بھی باہر ہے۔
اس وقت یوکرین میں جاری جنگ سے ہونے والی تباہی اور انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے ماہرین کا اندازہ ہےکہ وہ 63ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، اور جنگ ابھی جاری ہے۔
کیف سکول آف اکنامکس کی ایک رپور ٹ کے مطابق گزشتہ ایک ماہ میں بنیادی انفراسٹرکچر کی تباہی تو ایک طرف ، صرف گزشتہ ہفتے ہونے والے نقصان کا تخمینہ 3.5ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ابھی تک یوکرین کی آٹھ ہزار سے زائد سڑکیں، 260پل، 4431گھر، 92فیکٹریاں اور کارخانے،378 اسکو ل اور کالج، 138 چھوٹے بڑے ہسپتال، دو بندرگاہیں اور 18 سول اور ملٹری ائیر پورٹس کے علاوہ ایک ایٹمی پلانٹ اور آٹھ بجلی گھروں کو یاتو نقصان پہنچا ہے یا وہ مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔
کسی ملک میں بننے والا بنیادی انفراسٹرکچر برسوںبلکہ دہائیوں کی محنت کا نتیجہ ہوتا ہے اور اس پر کثیر سرمایہ لگتا ہے۔ اسکے علاوہ دیکھا جائے تو یوکرین پر روسی حملے کا سب سے بڑا نقصان تو شہریوں کو ہوا جنہیں بڑی تعداد میں ملک چھوڑ کر ہمسایہ ممالک میں پنا لینا پڑی۔ یوکرینی مہاجرین اور فی الوقت مشرقی یوکرین میں مسحور شہریوں کی بڑی تعداد اس وقت شدید تناو اور پریشانی کی کیفیت میں ہے۔
یوکرینیوں کی بڑی تعدادکے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
اس جنگ کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ ملک کا صدر ولادیمیر زیلنسکی ہے جو روس کے خلاف اپنے ملک کو مغرب کا آلہ کاربنانے کیلئے تباہی کاراستہ چنتا ہے یا روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن، جنہو ں نے عالمی دباو ، سخت ترین معاشی پابندیوں اور انہیں جنگ سے باز رکھنے کے تمام مغربی ہتھکنڈوں کے باوجود ہٹ دھرمی اور جنگی جنون کا مظاہرہ کیا؟ اس حوالے سے کئی برسوں تک مباحث جاری رہیں گے کیوں کہ جنگ کےبیوپار اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہےاور جیساکہ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میںدل نہیں ہوتااور جہاں احساس نہ ہووہاں اخلاقیات کا کیا کام۔
اس جنگ کی اخلاقی ذمہ داری اس پر عائد کی جائے گی جو پراپیگنڈا اور بیانیے کی جنگ ہار جائے گا۔ بظاہر لگتا ہے کہ مغربی ممالک نے روسی ذرائع ابلاغ تک رسائی ناممکن بنادی ہے ، ایسےمیں بیانیہ مغربی ممالک کا ہی جیتے گا۔ اور ایسا کیوں نہ ہو، آخر دوسری جنگ عظیم کے بعد سے عالمی نظام کو تشکیل دینے اور اسکی قیادت کی ذمہ داری سب ممالک نے امریکہ کے سپرد جو کر رکھی ہے۔ انٹر نیٹ ہو یا عالمی مالیاتی نظام، عالمی بینک ہو ں یا بین الاقوامی تنظیمیں ، ہر جگہ ہمیں امریکہ بہادر ہی نظر آتا ہے۔ بڑے بڑے ادارے واشنگٹن کے ایک اشارے پرتو ڈھیرہو جاتے ہیں۔
اس جنگ کے نتیجہ میں یوکرین کے مستقبل کے حوالے سےپشین گوئی کرنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ جنگ کا جوبھی نتیجہ نکلے، جو بھی عسکری فتح کا دعویٰ کرے ، یہ بات طے ہے کہ یوکرین کا آنے والا وقت معاشی طور پر دیگر ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر انحصار بڑھا دے گا اور اسکی رہی سہی خودمختاری بھی ختم ہو جائے گی۔ دیکھا جائے تو یوکرین پہلے ہی محدود خودمختاری والا ملک ہے ، چاہے کیف میں بیٹھا صاحب اقتدار ماسکو کا حامی ہو یا واشنگٹن کا۔ اسے کسی نہ کسی کی چاکری کرنی ہی پڑھتی ہے۔ زیلنسکی سے پہلے جو مقتدر تھے وہ ماسکو کےہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے اور کامیڈین صدر مغرب کے گن گاتا گاتا اپنے ہی ملک کو داو پر لگا بیٹھا۔ لیکن یہ نتیجہ اخذکرنا مشکل نہیں کہ کیف میں واشنگٹن کے اثرو رسوخ کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ او ہ یہ تو میں بھول ہی گیا کہ 1971میں ہم بھی امریکہ کے بہت چہیتے تھےا ور ڈھاکہ میں ہماری مشرقی کمان ہر روز اس امید کے ساتھ جاگتی تھی کہ امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا یو ایس ایس انٹرپرائز خلیج ملاکا سے خلیج بنگال پہنچنے کو ہے، امریکی بحری بیڑا تو نہ پہنچا لیکن سوویت یونین نے بارودی سرنگیں تباہ کرنے والا بیڑا ملاکا سے ہی خلیج بنگا ل میں پہنچا دیا۔
آج زیلنسکی بھی نیٹوکے سربراہی اجلاس سے یہ امید لگا بیٹھا کہ وہ روس کے مقابلے میں اسکی مدد کو آئیں گے لیکن بائیڈن نے نکسن کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اپنے حلیف کو مایوس کردیا۔ یوکرین ، جس نے امریکہ کی بچھائی ہوئی بساط پر مہرہ بن کر اپنی زمین لہو سے لال کردی آج دنیا بھر میں دہائی دے رہا ہے لیکن سوائے دلاسے ، چند ہتھیاروں اور مالی امداد کے، اسے کچھ نہیں مل رہا ۔ اور مالی امداد بھی اس جنگ میں ہونے والے نقصان کا کبھی بھی ازالہ نہیں کر سکتی ۔
اس کے مقابلے ماضی کا سوویت یونین ہو یا آج کی رشین فیڈیریشن ، اسکا رکارڈ اپنے حلیفوں اور حامیوں کے حوالے سے قدرے بہتر رہا ہے۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاتا صرف قارئین کو یاد دلاتا چلوں کہ روس گوکہ امریکہ جیسی بڑی طاقت نہیں رہا لیکن اس نے سوویت دور کے اپنے حلیفوں کو بھی کبھی فراموش نہیں کیا۔ شمالی کوریا کو ہی دیکھ لیں، دہائیوں سے پابندیوں کا شکار ایران ہو یا شام میں بشار الاسد، وینزویلا ہو یا کیوبا روس سے جو ہو سکے وہ اپنے دوست ممالک کیلئے کر گزرتا ہے اور اپنے حریف ممالک پر بھی وقت آنے پر ضرب لگانے سے نہیں چوکتا۔ اسکے مقابلے میں امریکہ جفاوں کی سرزمین کی سپر پاور ہے جس کا تزویراتی طرز عمل ایسا ہے کہ جس کا نشانہ اسکے دوست اور حلیف ممالک سب سے پہلے بنتے ہیں۔ یہاں مجھے بچھو اور کچھوے کی کہانی یاد آگئی:ایک بچھو کو دریاپار جانا تھا ، کیوں کہ بچھو کو تیرنا نہیں آتا اسلئے اسنے قریب ہی موجود کچھوے سے منت سماجت کی کہ اسے اپنی خول نماپشت پر سوار کرکے دریاپار چھوڑ آئے، کچھوا بھلے مانس مان گیا، دونوں کا سفر شروع ہوا تو کچھوے کو اپنے خول پر ٹھک ٹھک کی آواز آنے لگی ۔ اسنے بچھو سے اس آواز کے بارے میں دریافت کیا تو جواب ملا کہ میں ڈنگ ماررہا ہوںلیکن پریشان نہ ہو تمہارے اس خول پر اسکا کوئی اثر نہیں پڑھے، بچھو نے پریشان ہو کہ پوچھاکہ آخر تم ایسا کیوں کررہے ہو؟ بچھو نےکہا کہ یہ میری فطرت میں شامل ہے میں ہر چیز کو ڈھنگ مارتا ہوں، یہ سنتے ہیں کچھوے نے غوطہ لگایا، بچھو نے ڈوبتے ہوئے پریشانی سےپوچھا آخر تم ایسا کیوں کررہے ہوں میں ڈوب جاوں گا۔ کچھوے نے جواب دیا کہ پانی میں غوطہ لگانا میری فطرت ہے۔