موسم کا عالمی دن۔۔۔۔کرہ ارض تیزی سے تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عالمی رپورٹ

سہیل شہریار

ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) نے کہا ہےکہ گرین ہاؤس گیسوں کے ارتکاز، سمندر کی سطح میں اضافہ، سمندر کی گرمی اور سمندری تیزابیت نے 2021 میں موسمیاتی تبدیلی کے چار نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔


موسم کے عالمی دن کے موقع پر بدھ کے روزجاری ہونے والی رپورٹ میںموسمیاتی ادارے نے کہا ہےکہ آب و ہوا کے چار اشارے واضح علامت ہیں کہ انسانی سرگرمیاں زمین، سمندر اور ماحول میں کرہ ارض کے پیمانے پر تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہیں۔اوررپور ٹ کے مطابق یہ اشارے نقصان دہ پائیداراضافےکی وجہ سے ماحولیاتی نظام اور انسانیت کے لیے دیرپا مضر اثرات مرتب کر رہے ہیں۔


ڈبلیو ایم او کی اسٹیٹ آف دی گلوبل کلائمیٹ 2021 کی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ زمین پر گز شتہ سات سال سب سے زیادہ گرم رہے ہیں۔تاہم گذشتہ سال کے آغاز اور آخر میں لا نینا ویدر پیٹرن ایونٹ کی وجہ سے پچھلا سال سات گرم ترین سالوں میں سے کم گرمی کا حامل سال تھا۔
ڈبلیو ایم او اسٹیٹ آف دی گلوبل کلائمیٹ رپورٹ 2021 کو اس سال کے آخر میں مصر میں ہونے والے اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے مذاکرات COP27 کے لیے ایک سرکاری دستاویز کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔اس بات کا اعلان کرتے ہوئے
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نےموسمیاتی تبدیلیوں کے دور رس مضر اثرات سے نمٹنے کے لئے تونائی کے متبادل ذرائع پر عالمی سطح پر توجہ مرکوز کرنے اور سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا۔


انہوں نےقابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے لیے پانچ اہم اقدامات تجویز کیے ہیں۔ان میں قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی اور سپلائیز تک زیادہ رسائی، قابل تجدید ذرائع میں نجی اور عوامی سرمایہ کاری میں تین گنا اضافہ، اور فوسل ایندھن پر سبسڈی کا خاتمہ شامل ہے جس کی رقم تقریباً 11 ملین ڈالر فی منٹ ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ اصل توانائی کی حفاظت، بجلی کی مستحکم قیمتوں اور پائیدار روزگار کے مواقع کا واحد راستہ قابل تجدید ذرائع ہیں ۔ اوراگر ہم مل کر کام کریں تو قابل تجدید توانائی کی جانب عالمی تبدیلی 21ویں صدی کا امن منصوبہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے روزمرہ کےاثرات سے شدید موسم کی وجہ سے سیکڑوں ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہو چکا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں نےانسانی جانوں اور فلاح و بہبود کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔جبکہ خوراک اور پانی کی حفاظت اور نقل مکانی کے ضمن میں شدید جھٹکوں کو جنم دیا ہے جو 2022 میں بڑھ چکے ہیں۔2021 کے آغاز اور اختتام پر ہونے والے لا نینا ایونٹ میں عارضی ٹھنڈک کا اثر تھا لیکن اس نے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے مجموعی رجحان کو تبدیل نہیں کیا۔چنانچہ2021 میں اوسط عالمی درجہ حرارت صنعتوں کی آمدسے پہلے کی سطح سے تقریباً 1.11 سینٹی گریڈزیادہ تھا۔
رپورٹ میں اعدادوشمار کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ اب ہر آنے والا سال ریکارڈ گرم ترین سال ہوگا۔ہماری آب و ہوا ہماری آنکھوں کے سامنے بدل رہی ہے۔ اور انسانوں کی پیداکردہ گرین ہاؤس گیسوں میں پھنسی ہوئی گرمی آنے والی کئی نسلوں کے لیے کرہ ارض کو گرم سے گرم کرے گی۔
ڈبلیو ایم او کے سربراہ پیٹری طالاس نے کہا کہ سمندر کی سطح میں اضافہ، سمندر کی گرمی، اور تیزابیت سینکڑوں سالوں تک جاری رہے گی جب تک کہ فضا سے کاربن کو ہٹانے کے ذرائع ایجادنہیں کر لئے جاتے۔انہوں نے وضاحت کی کہ کچھ گلیشیئراپنے خاتمے کے نقطہ پر پہنچ چکے ہیں۔ اور اس کے طویل مدتی اثرات دنیا کے اس حصے پر مرتب ہوں گے جہاں 2 بلین سے زائد افراد پہلے ہی پانی کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔تاہم ڈبلیو ایم او کے سربراہ نے کہا کہ ہارن آف افریقہ میں خشک سالی کی ہنگامی صورتحال، جنوبی افریقہ میں حالیہ مہلک سیلاب اور بھارت اور پاکستان میں شدید گرمی اور گلیشئر کا پھٹناموسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت اجاگر کرتا ہے۔
سب سے توجہ طلب بات یہ ہے کہ مجموعی طور پر زمین کادرجہ حرارت بڑھانے کی وجہ بننے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا نصف سے زیادہ حصہ صرف تین ملک خارج کر رہے ہیں۔ان میں چین 30فیصد کے ساتھ سرفہرست ہے ۔ امریکہ 13.5فیصد کے ساتھ دوسرے اور بھارت 7.5فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔ اور ان ملکوں کا گرین ہاؤس گیسوں کے 34ارب ٹن سالانہ اخراج میں حصہ 51فیصد ہے۔


طالاس نے کہا کہ موسمیاتی موافقت کے لیے ابتدائی انتباہی نظام کی سخت ضرورت ہے۔مگر اب بھی یہ ڈبلیو ایم او کے نصف سے بھی کم اراکین کے لیے دستیاب ہے۔حقیقت یہ ہے کہ انتہائی موسم کا ہماری روزمرہ کی زندگی پر سب سے زیادہ فوری اثر پڑتا ہے۔اور ہمارے آفت کو روکنے کی تیاری میں سالوں کی سرمایہ کاری کا مطلب ہے کہ ہم جانیں بچانے میں بہتر ہیں۔ حالانکہ اس کے معاشی نقصانات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More