بیجنگ(پاک ترک نیوز)
اگر عالمی کار ساز کمپنیاں یہ سوچتی ہیں کہ وہ چین میں اپنے تسلط کو برقی کاروں کے دور میںبھی قائم رکھ سکتی ہیں۔ تو انہیں بڑے جھٹکے کے لئے تیار ہو جانا چاہیے۔
چینی میڈیا میں گذشتہ روز شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق کارسازی کے پرانے دور کے بادشاہ جیسے کہ جنرل موٹرز اور ووکس ویگن چین میں تیزی سے بڑھتی ہوئی الیکٹرک وہیکل (ای وی) مارکیٹ میں مقامی کھلاڑیوں سےپیچھے رہ گئے ہیں۔ کیونکہ چین ایک ایسا ملک ہے جو اپنی خود انحصاری اورالیکٹرک گاڑیاں بنانے کے عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بھرپور فنڈنگ کر رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صارفین کی مانگ کو پورا کرنے کے لئے دنیا کی سب سے بڑی چین کی تقریباً 500 بلین ڈالر کی آٹو مارکیٹ میں الیکٹرک کاروں کی فروخت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
چائنا ایسوسی ایشن آف آٹوموبائل مینوفیکچررز کے اعداد و شمار کے مطابق 2022 کے پہلے چار مہینوں میںبرقی توانائی سے چلنے والی مسافر کاروں کی تعداد – خالص ای وی اور پلگ ان ہائبرڈز – ایک سال پہلے کے مقابلے میں دگنی سے زیادہ ہو کر 1.49 ملین کاریں ہو گئی ہے۔چین کی مسافر کاروں کی مارکیٹ میں کلینر ٹیکنالوجیز کا حصہ 23 فیصد ہے۔جبکہ گاڑیوں کی مجموعی فروخت میں 12 فیصد کمی واقع ہوئی۔ جو کہ پٹرول کاروں کی مانگ میں زبردست کمی کو ظاہر کرتی ہے۔
چائنا پیسنجر کار ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق، اس سال نئی انرجی وہیکل (NEV) سیگمنٹ میں سرفہرست 10 کار ساز کمپنیوں میں کوئی غیر ملکی برانڈ نہیں ہے سوائے امریکی الیکٹرک سرخیل ٹیسلا کے فہرست میں تیسرے نمبر پرہے۔جبکہ بی وائی ڈی اوروولنگ کی چیری اور ژی پنگ تک باقی تمام چینی برانڈز ہیں۔ چین میں مارکیٹ کے رہنما بی وائی ڈی اس سال ملک میں تقریباً 390,000 الیکٹر ک و ہیکل فروخت کی ہیں جو کہ عالمی رہنما ٹیسلا سے تین گنا زیادہ ہیں۔
سابقہ پوسٹ