تجزیہ:سلمان احمد لالی
پاکستان کے حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے اور یہ تبدیلی بڑی حد عالمی سطح پر آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اسرائیلی اخبار ہیریٹ نےایک مضمون شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے کہ سعودی عرب کی بدولت پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنا اب ناگزیر ہے۔ اسکے پاکستان اس چیز کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ وہ سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل کے خلاف مزاحمت کرے۔
اس مضمون میں پاکستانی صحافی احمد قریشی کے دورہ اسرائیل کے حوالے سے لکھا گیا کہ باوجود پاکستان تحریک انصاف کیجانب سے احمد قریشی کے دورہ پر شدید تنقید اورانکے پی ٹی وی ورلڈ پر پروگرام کوبند کرنے کے باوجود تمام بڑے صحافیوں نے انکا دفاع کیا ۔
اسکے علاوہ اس مضمون میں تفصیلا پاکستان کے مختلف گروہوں اور جماعتوں کی جانب سے اسرائیل کے حق اور مخالفت میں پائے جانے والے جذبات کا تجزیہ کیا گیا۔ یہ حقیقت ہےکہ پاکستان کے پڑھے لکھے طبقے میں اس حوالے سے یہ آرا پائی جاتی ہے کہ جب عرب ممالک ابراہم ایکارڈ کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کا آغاز کرچکے ہیں۔ سعودی عر ب کے خفیہ تعلقات قائم ہو چکےہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے تاجروں کے درمیان کاروباری مراسم بھی تشکیل پارہے ہیں ، ترکی گزشتہ دودہائیوں کے اختلافات کو ختم کرکے اسرائیل کے ساتھ بہتر تعلقات کی بنیاد ڈال چکا ہے تو پاکستان کے پاس ساری اسلامی دنیا سے کٹ کر ااورالگ تھلگ رہنے کا کیا جواز ہے۔پاکستان کے عسکری حلقوں میں یہ رائے پائی جاتی ہےکہ اگر پاکستان فلسطین کے بارے میں اپنے دیرینہ اور اصولی موقف سے پیچھے ہٹتا ہے تو اس سے کشمیر پر پاکستان کی پوزیشن کمزورہوتی ہے۔
تاہم بعض افراد کا یہ بھی خیال ہے کہ کشمیر اب قصہ پارینہ بن چکا ہے اور ہمیشہ یہ مسئلہ جلد از جلد حل کرکے بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی جانب بڑھنا چاہیے۔
یہ تاثر عام ہے کہ عمران خان ان دونوں اقدامات کی مخالفت کررہے تھےا ور ایسی سازشی تھیوریاں عام گردش کرتی ہیں کہ عمران خان کو اقتدار نکال باہر کرنے کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں ان میں یہ دونوں مسائل بھی ہیں۔
گوکہ کوئی بھی ریاست ماضی میں زندہ نہیں رہ سکتی اور بدلتی ہوئی تزویراتی حقیقتوں کا ادراک ریاست میں موجود فیصلہ ساز قوتوں کیلئے بہت ضروری ہے۔ تاہم ان دونوں فیصلوں کو زور زبردستی پاکستان پر لاگو کرنا شدید مزاحمت اور مخالفت کا باعث بنے گا۔ شاید پاکستان کے موجودہ معاشی حالات کو ایک منصوبے کے تحت اس نہج پر پہنچایا جارہا ہے جہاں پاکستان کچھ امداد کے عوض فلسطین پر اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوجائے تاہم یہ سیاسی طور پر اور سماجی اعتبار سے بہت مہنگا سودا ثابت ہوگا۔
صرف ایک صورت ہے کہ پاکستان کے ایک سو ارب ڈالر سے زائد کے بیرونی قرضوں کو ختم کرنے اور معیشت کیلئے فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کی شکل میں ایک بڑے stimulusپیکیج کے بعد عوام شاید اس فیصلے میں اپنا کوئی فائدہ دیکھنےپر مجبور ہو وگرنہ یہ صورتحال شدیدبے چینی ، غصے اور عرب مخالف جذبات کا باعث بنے گی۔ عرب ممالک کے علاوہ امریکہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ جنوبی ایشیا میں ایک نیا ایران بنے جو جوہری طاقت کا حامل بھی ہو۔
میں مختصرا ایک اور خبر کا تذکرہ کرتا چلوں، بھارت پاکستان کے سابق سفارتکار عبد الباسط نے دعویٰ کیا ہےکہ پاکستان کے موجودہ وزیر خارجہ اپنے امریکہ دورہ کےدوران سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کو یہ یقین دہانی کروا آئے ہیں کہ پاکستان بھارت کے سلامتی کونسل میں بطور مستقل رکن شمولیت اختیار کرنے پر مخالفت نہیں کرے گا، اس پر حکومت کی وضاحت آنا ضروری ہے۔ خاموشی اس تاثر کو مزید تقویت دے گی۔ کیوں کہ موجودہ پولرائزیشن کےماحول میں یہ تاثر ان سازشی مضروضوں کو ہوا دینے میں کردار ادا کرسکتا ہے کہ جس کے تحت عمران خان کی حکومت کو گرایا گیا۔
سابقہ پوسٹ