لندن (پاک ترک نیوز)
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی حکومت آج بدھ کے روز اقتدار میں رہنے کے لئے جدوجہد کرتی ہوئی دیکھی جارہی ہے۔ جسے تازہ جنسی اسکینڈل کے نتیجے میں دوسینئر وزراء سمیت 13 جونئیر وزراکے استعفوںنے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جبکہ مزید متعدد جونئیر وزرا اور حکومتی وپارٹی عہدیداروں کے استعفوں کی تلوار بھی اس کے سر پر لٹک رہی ہے ۔
آج بور س جانسن کوپارلیمنٹ میں پہلا چیلنج وزیر اعظم کے ہفتہ وار سوالات کے سیشن میں سخت سوالات کی صورت میں ہوگا۔ اور ساتھ ہی سینئر قانون سازوں کی ایک کمیٹی کی طرف سے طویل عرصے سے طے شدہ گرلنگ کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
گورننگ کنزرویٹو پارٹی کے اندر جانسن کے فیصلے اور اخلاقیات پر مہینوں کاعدم اطمینان کا غبارہ منگل کی شام ٹریژری چیف رشی سنک اور ہیلتھ سکریٹری ساجد جاوید کے استعفوں کے ساتھ پھوٹ پڑا۔جس کے بعد اب تک 13جونئیر وزرا اور عہدیداروں کی جانب سے استعفے دئیے جا چکے ہیں۔ جبکہ جانسن نے فوری طور پر دونوںسینئیر وزراء کی جگہ ناظم الزہاوی کو محکمہ تعلیم سے ٹریژری میں ترقی دے کر اور اپنے چیف آف اسٹاف اسٹیو بارکلے کو سیکریٹری صحت کے عہدے پر تعینات کر کے اپنے عزم ظاہر کر دیا ہے۔
تاہم کنزرویٹو پارٹی کی لبرل اور دائیں بازو کی شاخوں سے – مزید جونیئر وزراء کی طرف سے منگل کے آخر میں استعفوں کے ایک سلسلے نے ظاہر کیا کہ جانسن کے لیے خطرہ بہت دور نہیں ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں میں، جانسن پر پولیس کی طرف سے جرمانہ عائد کیا گیا ہے اور وبائی امراض کے دوران حکومت میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والی جماعتوں پر ایک تفتیش کار کی رپورٹ کے ذریعے تنقید کی گئی ہے۔وہ گذشتہ ماہ اپنی پارٹی کی طرف سے عدم اعتماد کے ووٹ سے بچے ہیں جس میں کنزرویٹو قانون سازوں کے 41فیصدنے انہیں بے دخل کرنے کے حق میں ووٹ دیاتھا۔
اس سب کےباوجودبورس جانسن نےنہ صرف حکومت میں رہنے کا عزم ظاہر کیا ہے ۔ساتھ ہی اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ وہ 2030 کی دہائی تک عہدے پر رہنا چاہتے ہیں۔