از ۔علی وقار
پنجاب اسمبلی نے اپوزیشن کی غیر موجودگی میں چیف الیکشن کمشنر اور ممبران الیکشن کمشنر کے خلاف قرار داد کثرت رائے سے منظور کر لی۔قرارداد کے مطابق الیکشن کمیشن غیر جانبدار نہیں رہا اس لئے وہ فوری مستعفی ہوں، دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے تحریک انصاف کی ممنوع فنڈنگ کا فیصلہ فوری سنانے کا مطالبہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے۔
سکندر سلطان راجا کو تعینات کرتے وقت ہم اکثر ٹیلی ویژن سکرینوں پر عمران خا ن کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کی تعریفوں کے پل باندھتے دیکھتے تھے اور ان کی شخصیت کو بھی سراہا جاتا رہا ہے۔چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر کی اس دوران انہوں پورے پاکستان میں ہونے والے ضمنی انتخابات کروائے لیکن ان کی بدقستمی کی سیالکوٹ میں ڈسکہ کا الیکشن ان کی ساری محنت پر پانی پھیر گیا جہاں مبینہ طور پر دھاندلی کے الزامات پر پاکستان مسلم لیگ اور ان کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے الیکشن پر شدید اعتراضات دائر کئے گئے جس پر الیکشن کمیشن نے حلقہ میں دوبارہ انتخابات کروانے کا حکم دیا اور انکوائری رپورٹ مکمل ہونے کے بعد ذمہ دارروں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کرنے کی ہدایت کی وہ دن اور آج کا دن جو چیف الیکشن کمشنر عمران خان اور تحریک انصاف کی آنکھوں کا تارہ تھے وہ اچانک سے ان کو کھٹکنے لگے اسی دوران تحریک انصاف کی ممنوع فنڈنگ کا کیس بھی الیکشن کمیشن میں زیر سماعت رہا اور پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کمیشن پر دبائو بھی ڈالا جاتا رہا ہے کہ وہ کسی طرح آٹھ سال سے زیر سماعت اس معاملے کو مزید التواء میں ڈالیں لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور الیکشن کمیشن نے اب ممنوع فنڈنگ پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے جس کا سب کو انتظار ہے۔
پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت جانے اور چوہدری پرویز الہی کے وزیر اعلی بننے کے بعد پی ڈی ایم کی مشترکہ جماعتوں نے بھی اپنی توپوں کا رخ الیکشن کمیشن کی جانب کر دیا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلم لیگ نواز کی وفاقی حکومت اور ان کے اتحادیوں کو عمران خان کو شکست دینے کے لئے اب ایک ہی امید کی کرن نظر آرہی ہے اور وہ ممنوع فنڈنگ کا کیس ہے جہاں حال ہی میں ایک بین الاقوامی اخبار کی جانب سے عمران خان اور ان کی جانب سے کے لئے فنڈنگ کرنے والے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا گیا ہے اس رپورٹ نے مشکلات کے گرداب میں دھنسی وفاقی حکومت کے لئے وینٹی لیٹر کا کردار ادا کیا ہے اور اب وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے بھی الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر ممنوع فنڈنگ کا فیصلہ سنائے،لیکن ابھی بھی الزامات در الزامات جاری ہیں عمران خان کے میڈیا ایڈوائزر نے پنجاب اسمبلی میں ممنوع فنڈنگ کے خلاف بات کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن رد الفساد کے بعد اب آپریشن ردالسازش کا آغاز کر دیا گیا ہے ممنوع فنڈنگ کا شور مچانے والے پہلے یہ تو بتائیں کہ مسلم لیگ نواز کو جو 72کروڑ روپے سے زائد کی فنڈنگ ہوئی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کو 36 کروڑ روپے کی فنڈنگ ہوئی ہے اس کا وہ ثبوت نہیں دے سکے، سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کا فیصلہ ایک ساتھ سنائے،پاکستان تحریک انصاف کی سابق رکن قوم اسمبلی عندلیب عباس کی جانب سے بھی سوشل میڈیا پر چیف الیکشن کمشنر کے خلاف انیس نکاتی چارج شیٹ پیش کی گئی جس میں انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ چیف الیکشن کمشنر نے تحریک انصاف کے خلاف بے شمار ایسے فیصلے اور اقدامات کئے ہیں جن سے ان کی غیر جانبداری سوالیہ نشان ہے۔
پاکستان تحریک انصاف تو اب ایک قدم اور آگے نکل آئی ہے اور انہو ں نے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ کھل کر جنگ لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے، پنجاب اسمبلی میں اتوار کو ہونے والے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کے خلاف قرار داد ہی پیش کردی جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن غیر جانبدار نہیں رہا اور صاف اور شفاف الیکشن کے انعقاد کے لئے ضروری ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور ممبران اپنے عہدے سے مستعفی ہوں اور تمام سیاسی جماعتیں آئندہ انتخابات سے قبل ایک ایسا الیکشن کمیشن تشکیل دیں جو متنازع نہ ہو اور سب کے لئے قابل قبول ہو ایوان میں پیش کی گئی یہ قرارداد اپوزیشن جماعتوں کی عدم موجودگی میں کثرت رائے سے منظور کر لی گئی تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا استعفی پہلے آتا ہے یا ممنوع فنڈنگ کیس کا فیصلہ پہلے آتا ہے۔