اسلام آباد(پاک ترک نیوز) الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ ضبطگی کیس میں شوکاز نوٹس پر پاکستان تحریک انصاف کے اعتراضات پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
پی ٹی آئی وکیل انور منصور خان اور الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل ڈی جی لاء نے کمیشن میں اپنے دلائل دیے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف بھی الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔
پی ٹی آئی وکیل انور منصور نے دلائل میں کہا کہ فنڈنگ ضبط ہونے کا نوٹس پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کے رول 6 کے تحت دیا گیا لیکن قانون کے مطابق نوٹس الیکشن کمیشن نے جاری کرنا ہوتا ہے، تحریک انصاف کو نوٹس سیکریٹری نے جاری کیا ہے، کہیں لکھا بھی نہیں کہ کمیشن کے حکم پر کیا گیا۔
انور منصور نے کہا کہ کمیشن کی ہدایت پر بھی شوکاز نوٹس نہیں بھیجا جا سکتا، قانون واضح ہے کہ نوٹس الیکشن کمیشن نے ہی جاری کرنا ہوتا جبکہ الیکشن کمیشن کا مطلب چیف الیکشن کمشنر اور ممبران ہیں۔ ممبر سندھ نثار درانی نے کہا کہ نوٹس سیکریٹری بھی جاری کرے تو فرق کیا پڑے گا؟ جس پر انور منصور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے علاوہ کسی کو نوٹس جاری کرنے کا اختیار ہی نہیں، سپریم کورٹ کے اس نقطے پر فیصلے موجود ہیں کہ کمیشن کا اختیار کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کیا کابینہ کے فیصلوں پر وزراء کے دستخط ہوتے ہیں یا منٹس بنتے ہیں؟ وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ منٹس میں لکھا جاتا ہے کہ کس نے حمایت کی اور کس نے مخالفت، جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کابینہ کا سیکریٹری رہا ہوں، منٹس میں یہ نہیں لکھا جاتا۔ انور منصور نے کہا کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن کے فیصلہ سے آگاہ کر سکتا ہے خود فیصلہ نہیں دے سکتا۔
تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن میں گواہان پیش کرنے کی بھی درخواست دیدی۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ گواہان کو طلب کرکے جرح کرنا چاہتے ہیں، سکروٹنی کمیٹی اور بینک افسران کو طلب کرکے جرح کریں گے، قانون کے مطابق سماعت کے بغیر شوکاز نوٹس پر فیصلہ نہیں ہو سکتا، شوکاز نوٹس پر کارروائی کیلئے تمام چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں اس لیے شفاف ٹرائل کا آئینی حق دیا جائے۔
ممبر سندھ نثار درانی نے کہا کہ کمیشن نوٹس پر سماعت ہی کر رہا ہے جبکہ مبر بلوچستان شاہ محمد جتوئی نے کہا کہ ٹرائل تو مکمل ہوچکا ہے اب صرف عملدرآمد ہو رہا۔ انور منصور نے کہا کہ سکروٹنی کمیٹی رپورٹ پر فیصلہ الگ اور فنڈنگ ضبطگی کی کارروائی الگ ہیں، اعلیٰ عدلیہ قرار دے چکی ٹرائل کا آغاز ہوتا ہی شوکاز کے بعد ہے۔
ممبر سندھ نثار درانی نے کہا کہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ آئی پھر اس پر سماعت بھی ہوتی رہی، کیا ضروری ہے کہ اب دوبارہ سے سماعت ہو؟ انور منصور نے کہا کہ سکروٹنی کے وقت کوئی شوکاز نوٹس جاری نہیں ہوا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا کہ کیا سکروٹنی کمیٹی بننے سے پہلے بھی سماعت نہیں ہوتی رہی؟ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ سکروٹنی کمیٹی 2018 میں سپریم کورٹ کے حکم پر بنی تھی۔ چیف الیکشن کمشنر نے پوچھا کہ آپ کے مطابق سکروٹنی کمیٹی عدالت نے بنائی کمیشن کا اپنا فیصلہ نہیں تھا؟
انور منصور نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تمام جماعتوں کی سکروٹنی کرنے کے احکامات دیے تھے اور سکروٹنی کارروئی مکمل ہونے کے بعد ہی شوکاز جاری ہوا ہے، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہے کیونکہ فنڈنگ کیس میں سزا ہوسکتی ہے اس لیے فوجداری کیس ہی سمجھا جائے گا، سیاسی جماعت کی فنڈنگ ضبط ہونا بھی ایک سزا ہی ہے۔
ممبر بلوچستان نے استفسار کیا کہ کیا شوکاز نوٹس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے نہیں ہے؟ انور منصور نے بتایا کہ عملدرآمد فیصلوں پر ہوتا ہے، کمیشن نے آرڈر دیا تھا حتمی فیصلہ نہیں۔ ممبر بلوچستان نے کہا کہ قانون کہتا ہے سماعت کے بعد فنڈنگ ضبط کرنے کی کارروائی ہوگی، سکروٹنی ہوگئی، شوکاز ہوگیا اب سماعت بھی ہو رہی ہے۔
تحریک انصاف کے وکیل انور منصور خان نے دلائل مکمل کر لیے اور اب الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل ڈی جی لاء دلائل دے رہے ہیں۔
ایڈیشنل ڈی جی لاء نے دلائل میں کہا کہ فنڈنگ ضبطگی کیس میں شواہد ریکارڈ کرنے کی ضرورت نہیں، کبھی کہتے ہیں کمیشن عدالت نہیں کبھی کہتے ہیں عدالتی طریقہ کار اختیار کریں، تحریک انصاف نے تمام ممنوعہ فنڈنگ تسلیم کی ہے، تحریک انصاف کا اعتراض صرف بیرون ملک کمپنیوں کے قیام کے حوالے سے تھا۔
انہوں نے بتایا کہ سکروٹنی کمیٹی کو کہیں سے بھی دستاویزات منگوا کر تصدیق کرنے کا اختیار تھا، پی ٹی آئی نے صرف بتانا ہے کہ اکاؤنٹس چھپائے یا نہیں، فنڈنگ کیوں نہ ضبط کی جائے، تحریک انصاف کے اعتراضات خارج کرتے ہوئے کمیشن کارروئی آگے بڑھائے۔
انور منصور نے جواب الجواب میں کہا کہ کسی عدالت نے نہیں کہا کہ صرف دستاویزات پر فیصلہ کیا جائے، پہلے جو کارروئی ہوئی وہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر تھی اور اب کارروائی شوکاز نوٹس پر ہے۔
دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے اعتراضات پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔