انقرہ (پاک ترک نیوز) ترک صدر رجب طیب اردوان کاکہنا ہے کہ ترکیہ پر سنسر شپ کا الزام لگانے والے حقیقی سنسر شپ کرنے والوں کے بارے میں خاموش ہیں۔مغربی میڈیا کی آزادی کے حوالے سے دوہرا معیار ہے۔
انقرہ میں 7ویں اناطولین میڈیا ایوارڈز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ اربوں لوگوں کی آزادیِ اظہارِ رائے کو ختم کرنے والے آج جمہوریت اور آزادی کی بات ایسے کرتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ترکیہ پر سنسر شپ کا الزام لگانے والے حقیقی سنسر شپ کرنے والوں کے بارے میں خاموش ہیں۔بین الاقوامی میڈیا کے ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس طرح کے سکینڈلز پر خاموش ہیں۔
ترک صدر اردوان نے ٹوئٹر اور اس کی اندرونی فائلوں کی حالیہ ریلیز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایک سوشل میڈیا کمپنی کے عمل میں اسی دوہرے معیار کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جسے حال ہی میں سنبھالا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم، جو کبھی بھی آزادی اور ذاتی رازداری پر سمجھوتہ نہیں کرتا، کس کے ساتھ کاروبار کرتا ہے، یہ پردے کے پیچھے کیا کام کرتا ہے، اور یہ کس طرح لوگوں اور خیالات کو سنسر کرتا ہے جو اسے پسند نہیں کرتے ان سب چیزوں کو سمجھنا بہت اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جو لوگ ترکیہ میں جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی صحافت پر تنقید کر رہے ہیں، وہ اپنے اور اپنے مفادات کے حوالے سے کتنے فاشسٹ ہیں۔
2013 کے گیزی پارک مظاہروں کا حوالہ دیتے ہوئے، ترک صدر نے کہا کہ جن لوگوں نےترکیہ میں لٹیروں کو ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، جب پیرس اور واشنگٹن میں ایسے ہی واقعات رونما ہوئے تو مظاہرین کو دہشت گرد قرار دیا۔فیٹو نے ترکیہ میں 15 جولائی 2016 کی ناکام بغاوت کی منصوبہ بندی کی، جس میں 251 افراد ہلاک اور 2 ہزار 7 سو 34 زخمی ہوئے۔
انقرہ کا موقف ہے کہ ترکیہ کے اداروں بالخصوص فوج، پولیس اور عدلیہ میں فیٹو اپنی دراندازی کے ذریعے ریاست کا تختہ الٹنے کے درپے ہے۔