ترک صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ اور شامی پناہ گزینوں کی بے چینی

استنبول (پاک ترک نیوز) ترکیہ میں صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ کل ہو گا تاہم ملک میں موجود شامی پناہ گزینوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے ۔وہ اپنے مسقبل کو لے کر پریشان ہیں ۔
ترکیہ میں انتخابی مہم کے دوران اپوزیشن کے متعدد سیاست دانوں کو پناہ گزینوں اور تارکین وطن کو نکالنے کا عہد کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے جبکہ حکومت نے شامیوں کی "رضاکارانہ طور پر” وطن واپسی کو آگے بڑھانے کے اپنے منصوبوں پر روشنی ڈالی ہے۔
ترک صدارتی انتخابات میں صدر رجب طیب اردوان اور حزب اختلاف کے رہنما کمال کلیک دار اوغلو کل دوسرے مرحلے میں آمنے سامنے ہوں گے جبکہ 14 مئی کو پہلے میں اکثریت حاصل نہیں کی گئی تھی۔ اردوان نے 49.5 فیصد اور کلیک دار اوغلو نے 44.9 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ترکیہ نے 3.7 ملین پناہ گزینوں کو پناہ دی ہے جو کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ انتخابات سے پہلے کے سال میں، بڑھتی ہوئی مہنگائی، ڈوبتے لیرا اور زندگی کی قیمتوں میں گہرے بحران کے ساتھ معاشی بحران کے دوران، مہاجرین اور تارکینِ وطن، خاص طور پر شامیوں پر دباؤ بڑھتا گیا۔
اس صورتحال نے ترکیہ میں بہت سے شامیوں کو ملک میں اپنے مستقبل کے بارے میں گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے ایک 23سالہ شامی پناہ گزین کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں معلوم کہ الیکشن کے بعد کیا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ سیاستدان کہتے ہیں کہ وہ تمام شامیوں کو واپس بھیجنا چاہتے ہیں۔ ہم سب اس عرصے میں پریشانی کا شکار ہیں۔
یہ شامی نوجوان شام کی جنگ سے آٹھ سال قبل بے گھر ہو کر ترکیہ پہنچے تھے جہاں وہ اس وقت استنبول میں مقیم ہیں۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کے مطابق ترکیہ میں پناہ گزینوں کی اکثریت – 3.6 ملین – "عارضی تحفظ کی حیثیت” کے تحت رہنے والے شامی ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، 2011 میں شام کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے تقریباً 200,000 شامیوں کو ترکیہ کی شہریت دی گئی ہے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More