اسلام آباد (پاک ترک نیوز) سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے ٹرائل کورٹ کی جانب سے سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے وکیل حامد خان کے ذریعے درخواست دائر کی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا 26 اکتوبر کا حکم نامہ کالعدم قرار دیا جائے، عدالت اسپیشل کورٹ کا فرد جرم عائد کرنے کا 23 اکتوبر کا حکم نامہ آئین و قانون کے خلاف قرار دے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عمران خان چند دیانت دار اور معزز سیاست دانوں میں سے ایک ہیں جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اچھی ساکھ رکھتے ہیں، درخواست گزار کو مخالفین کی جانب سے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، سیاسی انتقام کا دائرہ درخواست گزار کی سیاسی جماعت اور اتحادیوں تک پھیلا دیا گیا ہے، اسلام آباد میں مجرمانہ مشینری کے ذریعے درخواست گزار کو نشانہ بنانے سے متعلق عدالت کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ ہونے کے باوجود درخواست گزار کے خلاف لگ بھگ 200 مقدمات بنائے گئے ہیں، درخواست گزار کے خلاف دہشت گردی، بغاوت اور غداری، توشہ خانہ سمیت سنگین مقدمات قائم کیے گئے ہیں، ان مقدمات کا مقصد درخواست گزار کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا اور سیاسی طور پر تنہا کرنا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایک تکلیف دہ رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ ریاستی مشینری جعلی مقدمات بنانے کے لیے قابلِ اعتراض مقصد کے تحت استعمال کی جا رہی ہے، درخواست گزار کے معاملے میں ایف آئی اے میں آزادی اور انصاف پسندی کے عنصر کی نمایاں کمی نظر آتی ہے، فارن فنڈنگ کیس میں ضمانت حاصل کرنے کے بعد ایف آئی اے کا سارا فوکس سائفر کیس پر مرکوز ہو چکا ہے، درخواست گزار کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے ایف آئی اے کی کوششوں سے ادارے کی ساکھ اور غیر جانب داری سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں اسپیشل کورٹ کے عبوری حکم کو چیلنج کرنے میں ناکامی پر زور دیا گیا ہے، ہائی کورٹ نے کیس نمٹا کر درخواست گزار کے ساتھ تعصب کا مظاہرہ کیا، اسپیشل کورٹ نے قانون کے مطابق دستاویزات کی فراہمی اور چارج فریم کرنے کے درمیان 7 روز کی مہلت دی۔
درخواست میں کہا گیا کہ ایک سابق وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے خلاف سائفر کا پیچیدہ کیس بنایا گیا، ایک صدی پرانے قانون کے اطلاق کے معاملے میں تمام فریقین بشمول درخواست گزار، جج اور وکلا کو انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے، ٹرائل کورٹ نے عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرد جرم عائد کرنے اور ٹرائل مکمل کرنے کی کوشش کی، کیس میں عجلت سے درخواست گزار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا، کیس میں عجلت کی وجہ سے شفاف ٹرائل کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہوئی، عقلمندی کا تقاضا ہے کہ الزامات کو سمجھ کر جواب جمع کرانے کا مناسب موقع ملنا چاہیے۔
وکیل نے مزید کہا ہے کہ چارج فریم کرنے کی کارروائی نے سنگین سوالات کو جنم دیا جائے، سپیشل کورٹ نے درخواست گزار اور اس کے وکلاء کی عدم موجودگی میں نامعلوم وقت پر نوٹ لکھا، درخواست گزار کے خلاف پورا ٹرائل غیر قانونی اور دائرہ اختیار سے تجاوز ہے۔