اسلام آباد (پاک ترک نیوز) افغان اسپیشل فورسز کے تقریباً 200 اہلکار جو برطانیہ منتقلی کے انتظار میں پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اب انہیں ملک بدری کا سامنا ہے جہاں وہ 2021 میں فرار ہونے کے بعد آئےتھے۔
برطانوی میڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد یہ اہلکار جنہیں برطانیہ نے تربیت اور مالی امداد فراہم کی تھی، پاکستان فرار ہو گئے تھے۔
افغان کمانڈوز کے لیے یہ خدشات اس وقت سامنے آئے جب یہ انکشاف ہوا کہ برطانوی حکومت نے سینئر برطانوی سفارتی اور فوجی شخصیات کی جانب سے اہم افغان رہنماؤں کو پناہ دینے کے مطالبات کو بھی مسترد کر دیا ہےجن کی جانوں کو خطرہ تھا۔
افغان فوجیوں کا مستقبل اس وقت معدوم نظر آتا ہے جب یہ انکشاف ہوا کہ برطانیہ کی حکومت نے افغانستان کے صوبہ ہلمند میں برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ کام کرنے والے 32 سابق گورنروں اور اہلکاروں کے لیے "فوری مدد” کے مطالبے پر توجہ نہیں دی۔
بی بی سی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں پھنسے فوجیوں کی نقل مکانی سے انکار کیا جا رہا ہے۔
بی بی سی نے اطلاع دی ہے کہ اس نے مارچ 2022 میں دفتر خارجہ کو ایک نجی خط بھیجا تھا جس میں ان اہلکاروں کے لیے مدد مانگی گئی تھی جنہوں نے افغان ریلوکیشنز اینڈ اسسٹنس پروگرام (اے آر پی) کے تحت برطانیہ منتقلی کے لیے درخواست دی تھی۔ یہ اسکیم برطانیہ کی حکومت کے ملازم یا اس کے کسی محکمے کے ساتھ کام کرنے والوں کے لیے ہے۔
بہت سے اہلکاروں اور فوجیوں کو مسترد کر دیا گیا تھا، جب کہ دیگر ایک سال سے زائد عرصے کے بعد اب بھی فیصلے کے منتظر ہیں۔
افغان اسپیشل فورسز کے ایک سپاہی، جس کی شناخت بی بی سی نے علی کے نام سے کی، نے بتایا کہ وہ اپنی بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ ایک کمرے میں رہ رہا تھا جب پاکستانی حکام نے غیر قانونی غیر ملکی شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نہ صرف سابق افغان اسپیشل فورسز کے اہلکار بلکہ وہ افغان شہری بھی جنہوں نے برطانیہ کی مدد کی تھی انہیں "سردی میں چھوڑ دیا گیا”۔
ہلمند کے ضلع گرمسیر کے سابق گورنر محمد فہیم نے بی بی سی کو بتایا کہ افغان طالبان جانتے ہیں کہ "ہم بین الاقوامی افواج کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے، اس لیے میرے لیے خطرہ حقیقی ہے۔”
دریں اثنا، برطانیہ کی وزارت دفاع نے بی بی سی کو بتایا کہ تقریباً 24,600 افراد کو محفوظ مقام پر لایا گیا ہے۔
بی بی سی نے وزارت کے ترجمان کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ "ہر آراپ درخواست کا انفرادی طور پر اور شائع شدہ پالیسی کے مطابق جائزہ لیا جاتا ہے، اور ہم ملازمت کے کردار کی بنیاد پر اہلیت کا فیصلہ خود بخود نہیں کرتے ہیں۔”