موجودہ عالمی نظام ناانصافیوں کا مرکب ہے، اب ایک زیادہ متوازن، منصفانہ اور جامع نظام کی تشکیل ہونی چاہیے۔صدر اردوان

استنبول (پاک ترک نیوز)
ترک صدر رجب طیب اردوان نے موجودہ عالمی نظام میں موجود ناانصافیوں کی نشاندہی اور شراکتی مالیات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے غزہ میں اسرائیل کے مظالم کی روشنی میں بین الاقوامی نظام کی ناکامی پر تنقید کی۔
جمعہ کے روز استنبول میں الباراکا اسلامی مالیاتی سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اردوان نے مالیاتی منڈیوں کے درمیان ایک پل کے طور پر ترکی کے کردار کی توثیق کی اور ضروری ریگولیٹری اقدامات کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر شراکتی مالیات جسے اسلامی مالیات بھی کہا جاتا ہے کے حصہ کو بڑھانے کے لیے جاری کوششوں پر زور دیا۔انہوں نے دنیا بھر میں دولت کے بڑھتے ہوئے تفاوت کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ بین الاقوامی نظام توازن کھو چکے ہیں۔آج دولت کی عدم مساوات عالمی سطح پر اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ دنیا کی سب سے امیر ترین ایک فیصد آبادی کل عالمی دولت کا تقریباً نصف حصہ رکھتی ہے۔ آمدنی کا انصاف بگڑ گیا ہے اور عدم مساوات اپنے عروج پر ہے۔
صدر نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی نظام کو اس کے تمام عناصر کے ساتھ آج کی حقیقتوں کے مطابق نئے سرے سے ڈیزائن کیا جانا چاہیے اور ایک زیادہ متوازن، منصفانہ اور جامع نظام کی تشکیل ہونی چاہیے ۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ بین الاقوامی نظام میں توازن ختم ہو گیا ہے اور غیر یقینی کی صورتحال بڑھ گئی ہے۔
اردوان نے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے بڑے پیمانے پر قتل عام کو عالمی نظام کی ناقص کارکردگی کا ثبوت قرار دیتے ہوئے کہا کہ مقامی صحت کے حکام کے مطابق غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے مسلسل حملوں میں کم از کم 35,800 افراد شہید ہو چکے ہیں۔ جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔جبکہ دنیا بھر میں نظم و نسق برقرار رکھنے کے لیے ذمہ دار ڈھانچوں نے ایک بار پھر اپنی غیر منصفانہ نوعیت کامظاہرہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا میں ایسیا کوئی ادارہ نہیں جو مظلوم کی حفاظت کر سکے، ظالم کو روک سکے اور ظلم کو روک سکے۔چنانچہ ہمارا پر زور مطالبہ ہے کہ عالمی نظام کو عصری حقائق کی عکاسی کے لیے نئے سرے سے ڈیزائن کیا جانا چاہیے۔ ہم سب کو ایک زیادہ متوازن، منصفانہ اور زیادہ جامع نظام بنانے کے لیے ہاتھ ملانا چاہیے۔ جہاں انصاف نہ ہو وہاں امن و سکون نہیں ہو سکتا۔
ایردوان نے کہا کہ ہر کسی کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ سرمایہ دارانہ نظام جو کمزوروں کو مزید کمزور اور ظالم کو مالا مال کرتا ہے، "ہماری بیماریوں کا علاج نہیں کرے گا۔”
انہوں نے نوٹ کیا کہ ترکیہ میں شرکت کی مالیات (اسلامی مالیات) مطلوبہ سطح سے نیچے ہے۔ہمارے پاس سسٹم سے باہر بچت کا کلچر ہے۔ جسے اکثر تکیہ کے نیچے بچت کہا جاتا ہے۔ ہم نے ان بچتوں کو معیشت میں ضم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہمارے اداروں نے عوام کو قائل کرنے کے لیے مالیاتی مصنوعات تیار نہیں کی ہیں۔ ہمیں اپنے تکیے کے نیچے سونے کو قومی معیشت میں شامل کرنے کے لیے شرکت کے مالیاتی نظام کو اس کی مستحق حیثیت تک بڑھانے کی ضرورتہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے لیے مالیات کے بارے میں ہمارے نقطہ نظر میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ شراکتی مالیات کو مذہبی حساسیت کے مطابق بچتوں کو منظم کرنے کے طریقے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ ہمارے ملک کی ترقی اور مالی آزادی کے لیے اہم مواقع فراہم کرتا ہے۔
صدر اردوان نے کہا کہ ہمارا مقصد بینکنگ اثاثوں میں شرکت کے مالیاتی حصے کو مختصر مدت میں 15فیصد تک بڑھانا ہے۔ جسکی موجودہ شرح تقریباً 9فیصد سے زیادہ ہے۔اور اس کے لئے ایک وقف شراکتی مالیاتی قانون کی تیاری کا کام جاری ہے۔
یاد رہے کہ استنبول میں جاری دو روزہ البرکا اسلامک فنانس سمٹ 75 ممالک کے 1,500 سے زائد مندوبین کی میزبانی کر رہی ہے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More