ہم آہستہ آہستہ اس گلی میں چل رہے تھے۔ تیزی سے چلنا یقیناً ان کاریگروں کی توہین تھی جنہوں نے نہایت مہارت کے ساتھ ہزار برس سے زائد قدیم شہر کو اس کی روائتی شکل میں بحال کردیا تھا۔ ہمارے دائیں بائیں خوبصورت دروازے تھے جن پر اس قدر شاندار انداز میں کنندہ کاری کی گئی تھی کہ نظر ہٹانے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ آنکھیں اوپر اٹھائیں تو شاندار جھروکے اور بالکونیاں داد تحسین وصول کرنے کو تیار نظر آتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی گلیوں میں انگور کی بیلیں لکڑی کی محرابوں پر اس قدر نفاست سے چڑھائی گئیں تھیں کہ ایسا گماں ہوتا کہ جیسے انگور کی بیل چھت کی صورت پوری گلی پر سیایہ فگن ہو۔ خیر جناب میں اور نورین صاحبہ کاریگروں اور منصوبہ سازی کی حس جمال کی تحسین کرتے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے چلے جارہے تھے۔ اچانک ایک شائستہ سی آواز سنائی دی۔ یہ ایک نہایت نفیس طبیعت کی مالک نوجوان لڑکی تھی۔ جس نے نورین صاحبہ کو کہا کہ کیا آپ ہمارے گھر تشریف لا کر قہوہ پینا پسند کریں گی۔ ہمارے لئے یہ غیر متوقع نہیں تھا۔
صبح دس بجے کے قریب ہماری بس نے ہمیں توان چنگ ڈسٹرکٹ کے داخلی دروازے پر اتارا۔ یہاں ایک ٹورسٹ گائیڈ ہماری رہنمائی کے لئے موجود تھے۔ وہ چینی زبان میں اس علاقے کی تاریخ بتاتے رہے اور ہماری اردو سروس کی چینی ساتھی نورین صاحبہ میرے لئے اسے اردو میں ترجمہ کرتی رہیں۔ گائیڈ نے بتایا کہ ہزاروں سال قدیم یہ بازار ایک وقت میں پرندوں کی خرید وفروخت کا مرکز مانا جاتا تھا۔ اس علاقے اور آس پاس کے علاقوں کے رہنے والے یہاں اپنی پسند کے پرندے خصوصاً کبوتر خریدنے آیا کرتے تھے۔ آج اس شہر کو ایک خوبصورت قابل دید سیاحتی مقام میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جس سے نہ صرف پرندے فروخت کرنے کی صنعت کو عروج ملا ہے بلکہ اس علاقے کے رہائشی لوگوں کی آمدن میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ یہاں موجود ہر گھر تقریباً تین منزلوں پر مشتمل ہے۔ سب سے نیچی والی منزل پر دکانیں قائم کی گئیں ہیں اس سے اوپر والی منزل پر ریستوران یا چھوٹے چھوٹے کارخانے اور سب سے بالائی منزل پر لوگ رہائش پذیر ہیں۔ تعارفی گفتگو میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہاں کے مقامی لوگ ہوتان میں سیر و سیاحت کے لئے آنے والی فیملیز کو اپنےہاں بطور مہمان ٹہراتے ہیں۔ کھانے اور رہائش کی مد میں بہت کم رقم وصول کی جاتی ہے بطور مہمان ٹہرنے والوں کو نہایت کم پیسوں میں گھر جیسا ماحول دستیاب آجاتا ہے۔
جب اس لڑکی نے ہمیں قہوے کی دعوت دی تو ہمیں تعجب نہ ہوا لہذا میں اور نورین صاحبہ اس لڑکی کے ساتھ گھر کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ گھر کی دوسری منزل پر اس کی والدہ نے ایک چھوٹا سا درزی خانے بنا رکھا تھا جہاں خواتین کے ملبوسات سینے کے لئے خواتین کاریگر موجود تھیں۔ تیسری منزل دوحصوں میں تقسیم تھی دائیں جانب مہمان خانہ اور بائیں جانب اس خاندان کے رہائشی کمرے تھے۔ مہمان خانہ نہایت دلکش اور دیدہ زیب تھا۔ تخت پوش کی اونچائی کے ایک جبوترے پر نہایت نفاست سے قالین پچھائے گئے تھے۔ مہمانوں کے بیٹھنے اور آرام کرنے کے لئے اون کی گدیاں اور گاؤ تکیے موجود تھے۔ اس طرح مہمان خانے میں ایک جانب صوفے رکھے گئے تھے جن کے سامنے چینی پروکلین کے برتنوں میں مقامی روائتی مٹھائیاں نان اور خشک میوہ جات موجود تھے۔ مہرماں کی والدہ نے ہمیں کرسٹل کے برتنوں میں قہوہ پیش کیا۔ جس کی خوشبو اور ذائقے نے دل و دماغ کو معطر کردیا۔
آپ سے بات چیت میں اس لڑکی کا تعارف تو میں بھول ہی گیا۔ اس کا نام مہرما تھا۔ مہرما کنڈرگارٹن کے بچوں کو پڑھانے کے ایک تربیتی پروگرام میں زیرتعلیم ہے۔ اس کی ایک بہن کی شادی ہوچکی ہے۔ آج تعلیمی ادارے میں مصروفیات کم ہونے کی وجہ سے وہ گھر پر موجود تھی اس لئے وہ اپنی والدہ کی مدد کررہی تھی۔ ان کے والد کی وفات کے بعد والدہ نے نہایت ہمت سے کام لیا اور نوکری کرنے کی بجائے اپنا کاروبار شروع کیا۔ حکومت کی مدد اور اپنی سخت محنت کی وجہ سے یہ خاندان نہایت خوشحال زندگی گزار رہا ہے۔ مہرماں کی بہن کی شادی ہوچکی ہے اور وہ اس وقت با آسانی تعلیم حاصل کررہی ہے۔ جب وہ ہمیں سیڑھیوں سے نیچے چھوڑنے آئی تو اس نے ہمیں اپنی بوتیک دکھائی جہاں دو خواتین اوپری منزل پر قائم کارخانے میں تیار ہونے والے ملبوسات فروخت کر رہی تھیں۔
میں اور نورین صاحبہ اس خاندان کی کامیابی کی داستان پر خوش تھے۔ گھر میں کوئی مرد نہ ہونے کے باوجود انہوں نے ہمت نہی ہاری، اپنے دستیاب وسائل اور اللہ کی رحمت پر انحصار کرتے ہوئے ذاتی کاروبار شروع کرکے نہ صرف خود ترقی کی بلکہ اپنے ساتھ چھ سات مزید خواتین کو روزگار بھی فراہم کیا۔ ہوتان کے اس قدیم شہری علاقے میں گزشتہ دو سال سے بحالی کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ یہ منصوبہ چار حصوں میں مکمل ہونا ہے۔ ابھی ایک حصے میں کام مکمل ہوا ہے۔ یہاں ہر چند قدم پر ایسی ہی کامیابی کی کئی داستانیں موجود ہیں۔ جنہیں دنیا تک پہنچانا نہایت ضروری ہے تاکہ لوگ اپنے لئے اندھیرے میں راستے تلاش کر سکیں۔ پاکستان میں ہماری بہنیں بھی سخت محنتی اور جفاکش ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی توانائیوں کا بہتر استعما ل کرنے لئے انہیں مناسب رہنمائی فراہم کی جائے تاکہ وہ بھی خوشحالی حاصل کر سکیں۔
تحریر: زبیر بشیر(چین)