ظہیر احمد
مشہور ترک ڈرامے ارطغرل غازی کی پروڈکشن ٹیم نے وزیراعظم عمران خان سے اسلام آباد میں ملاقات کی ۔ جس میں پاک ترک مشترکہ پروڈکشن پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے تجویز دی گئی کہ دونوں ممالک کے مشترکہ ہیرو’’ترک لالہ ‘‘ پر پہلی ڈرامہ سیریز بنائی جائے ۔ اس سے پہلے ترکی کے صدر طیب اردوان سابق وزیراعظم نوازشریف کے دور میں پاکستان آئے توانہوں نے اپنے خطاب عبدالرحمان پشاوری کو ذکر انتہائی محبت ، عقیدت اور احترام سے کیا۔پاکستانی قوم جس شخصیت کے نام تک سے ناواقف ہے ، پشاور کے اس بیٹے کو ترکی اپنا ہیرو کیوں مانتے ہیں ؟ اور عبدالرحمان پشاوری ترک لالہ کیسے بنے ؟ چلیں یہ داستان شروع کرتے ہیں ۔
عمران خان سے پہلے نوازشریف کو ’’ ترک لالہ ‘‘کی تلاش تھی ؟
نواز شریف دور میں جب طیب اردوان اسلام آباد آئے تو انہوں نے اپنے خطاب میں عبدالرحمان پشاور ی کا ذکر کیاکہ وہ ان کے ہیرو ہیں ۔ترکی اور پاکستان کے تعلقات کئی خصوصیات کے حامل ہیں، ہم لفظی نہیں، حقیقی معنوں میں برادرملک ہیں، گزشتہ ایک صدی کا جائزہ لیں تو ہماری دوستی کا اندازہ ہوجائے گا۔ترک صدر نے بتایا کہ جنگ نجات میں پاکستانی عبدالرحمان پشاوری نے ہیرو کا کردار ادا کیا، عبدالرحمان پشاوری کو ماں نے واپس بلوایا، لیکن اس نےترک قوم کا مشکل وقت میں ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ طیب اردوان کی تقریر کے دوران تب کے وزیراعظم نوازشریف نے ساتھ بیٹھے گورنر پختونخوا اقبال ظفر جگھڑا سے پوچھا یہ عبدالرحمان پشاوری کون ہیں ؟انہوں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیااور سیکریٹری کو بلاکر جلدی سے عبدالرحمان پشاوری سے متعلق معلومات فراہم کرنے کو کہا کہ آخر یہ کون ہے جس کا ذکر ترک صدر طیب اردوان ہیرو کے طور پر کررہے ہیں اور جن کا یہ سپوت ہے انہیں پتہ تک نہیں۔ اقبال ظفر جگھڑا کے سیکریٹری نے بھی جلدی جلدی ٹیلی فون کے نمبر گھمائے لیکن کہیں سےپتہ نہ چلاکہ عبدالرحمان پشاوری کون ہیں ؟ آخر میں پشاور یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر رسول جان کو فون کیا گیا ۔رسول جان نے شعبہ سیاسیا ت کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالرؤف کی عبدالرحمان پشاوری سے متعلق معلومات جمع کرنے کی ذمہ داری لگائی اور پھر آخرکار عبدالرحمان پشاوری سے متعلق رپورٹ وزیراعظم کو بھجوائی گئی ۔ اس کے بعد وائس چانسلر پشاور یونیورسٹی نے فوری طور پر عبدالرحمان پشاور پر ایک قومی کانفرنس بلانے کا حکم دیا ۔ کانفرنس کے لیے مختلف افراد کو مقالے لکھنے کو بھی کہہ دیا گیا لیکن جیسے پاکستانی قوم اپنے عظیم ہیرو عبدالرحمان پشاور کو بھول گئی ،اسی طرح وہ قومی کانفرنس بھی آج تک نہیں ہوپائی ۔
عبدالرحمان پشاوری کا خاندان پشاور کب آیا؟
ترک لالہ کے نام سے مشہور عبدالرحمان 6 دسمبر 1886 کو پشاور کے علاقے پنجشنبہ میں غلام صمدانی کے گھر پیداہوئے ۔ ان کا تعلق کشمیری پشتون فیملی سے ہے ۔ خاندانی روایت کے مطابق ان کے آباؤاجداد بغداد سے ایک بزرگ جانباز ولی کے ساتھ کشمیر کے علاقے بارہ مولا پہنچے اور وہیں قیام پذیر ہوگئے ۔ برسہابرس بعد عبدالرحمان کے دادا غلام صدیق خود تو بارہ مولا میں ہی رہے لیکن اپنے غلام صمدانی کو بھائیوں اور ایک بہن کے ساتھ پشاور ماموں کے پاس بھیج دیا۔ تب پشاور انگریزوں کی چھاؤنی تھی ۔ غلام صمدانی فوج کو مختلف قسم کے سامان کی سپلائی دینے لگے اور جلد ہی مالدار ہوگئے ۔ اندرون پشاور میں صمدانی محلہ اور ان کی خاندانی رہائش گاہ آج بھی کوہاٹی گیٹ میں موجود ہے ۔ عبدالرحمان کے والد غلام صمدانی نے پشاور کے مشہور قصہ خوانی بازار کے قریب واقع مسجد قاسم علی خان کی توسیع اور مستقل آمدنی کے لیے کثیر رقم خرچ کی ۔ غلام صمدانی اور ان کے تین بیٹوں کی قبریں آج بھی مسجد قاسم علی خان کے احاطے میں موجود ہیں ۔ عبدالرحمان پشاوری کے یہ تین بھائی یونس جان ، یوسف جان اور یحیی جان تھے ۔ یحییٰ جان خان انیس سو چھیالیس میں خدائی خدمت گار حکومت میں وزیرتعلیم رہے اور باچا خان کے داماد بنے ۔ وہ سلیم جان خان کے والد تھے ۔ دوسرے بھائی یونس جان ہندوستان کے وزیرتعلیم تھے ۔ قیدی کے خطوط اور فرنٹیئر سیکس ان کی تصانیف ہیں ۔ تیسرے بھائی یوسف جان نے اپنے بھائی ’’غازی عبدالرحمان شہید ‘‘ کے نام سے خطاب لکھی ۔
عبدالرحمان پشاوری علی گڑھ کیسے پہنچے ، کیسے نکالے گئے ؟
عبدالرحمان بچین سے ہی ذہین سمجھے جاتے تھے ۔ فٹ بال ، کرکٹ اور گھڑسواری میں بہت دلچسپی لیتے تھے ۔ 12 سال کے تھے جب انہوں نے قرآن مجید کے 14پارے حفظ کرلیے ۔اس دوران اچانک کسی وجہ سے ان کی آواز بیٹھ گئی ۔ کافی علاج معالجے کے بعد آواز تو ٹھیک ہوگئی لیکن حفظ نامکمل رہ گیا۔ عبدالرحمان کوپھر پشاور کے ایڈورڈ ہائی سکول میں داخل کرادیا گیا۔ ابھی وہ ساتویں جماعت میں تھے کہ علی گڑھ سے ایک وفد پشاور آیا جو علی گڑھ کالج کے لیے مالی معاونت کے ساتھ ایسے ذہین بچوں کو بھی تلاش کررہا تھا جو وہاں پڑھ کر مسلم قوم کے کام آسکیں ۔ غلام صمدانی نے علی گڑھ کالج کے لیے مالی مدد کی اور ان کے کہنے پر اپنے بیٹے عبدالرحمان کو علی گڑھ بھجوانے کو بھی راضی ہوگئے ۔ یوں ساتویں جماعت کے عبدالرحمان علیگڑھ کالج جیسی عظیم درس گاہ میں پہنچ گئے ۔ یہ سن 1906کی بات ہے ۔لیکن صرف 2 سال بعد 1908 میں عبدالرحمان اور ان کے ساتھی طالبعلم فضل امین کو علی گڑھ کالج سے نکال دیا گیا۔ کالج انتظامیہ نے الزام یہ لگایا کہ مولاناحسرت موہانی کے پرچے اردوئے معلی میں ایک مضمون ’’مصر میں انگریزوں کی پالیسی ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں انگریزوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ اس میں مضمون نگار کے نام کی جگہ ، ایک طالب علم ، لکھا گیا۔ انگریز سرکار نے مولانا حسرت موہانی کا پرچہ بند کرکے انہیں دو سال قید بامشقت کی سزادے دی ۔ علیگڑھ انتظامیہ نے ’’ایک طالبعلم ‘‘ کی تلاش میں عبدالرحمان کے دوست فضل امین پر شک کیا اور ان کےساتھ عبدالرحمان کو بھی تین سال کے لیے علیگڑھ کالج سے نکال دیاگیا۔
عبدالرحمان پشاوری کو قادیان کیوں رہنا پڑا ؟
علیگڑھ سے بے دخلی کے بعد فضل امین اور عبدالرحمان نے شملہ کا رخ کیا اور وہاںایک انگریزی سکول میں تعلیم حاصل کرنے لگے ۔ اس دوران عبدالرحمان کو دل کا عارضہ لاحق ہوگیا۔ غلام صمدانی نے اپنے بیٹے عبدالرحمان کا کلکتہ اور لاہور کے مشہور طبیبوں سے علاج کرایا لیکن افاقہ نہ ہوا۔ دل کے عارضے کے علاج کے لیے وہ قادیان بھی گئے اور وہاں حکیم نورالدین سے دوا لیتے رہے لیکن اس قادیانی طبیب کی دوا بھی کسی کام نہ آئی اور کئی مہینے قادیان میںقیام کے بعد عبدالرحمان نے دلی میں ڈاکٹر مختار احمد انصاری سے علاج شروع کردیا۔ ڈاکٹر مختاراحمد انصاری کی ادویات سے دل سے بیماری تو نہ گئی البتہ دل کو نئی راہ مل گئی اور دل کی بیماری ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی ۔
عبدالرحمان پشاور ی کی علیگڑھ میں واپسی
تین سال کا عرصہ مکمل ہونے کے بعد فضل امین اور عبدالرحمان کو دوبارہ علیگڑھ کالج میں داخلہ مل گیا۔ اس پر عبدالرحمان کا نام علیگڑھ کے طالب علم جانتے تھے ۔ 1911 میں طرابلس پر حملہ ہوا اور پھر عثمانی سلطان پر دباؤ ڈال کر طرابلس کی خودمختاری کو بھی منوالیا گیا۔ بلقان کی ریاستیں رومانیہ ، بلغاریہ اور سرویا عثمانی سلطنت سے نکل گئی اور پھر 1912 میں بلقانی ریاستوں نے ترکی پر حملہ کردیا۔ اس صورتحال سے برصغیر کے مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی جو بعد میں تحریک خلافت میں بدل گئی ۔ اس صورتحال میں ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی قیادت میں طبی مشن ترکی روانہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ترکی کی مدد کو جانے والے طبی مشن کو ، عوامی مشن برائے سلطنت عثمانیہ ، کے نام سے جانا جاناتاہے ۔ 24 افراد پر مشتمل اس وفد میں پانچ ڈاکٹر اور انیس مددگار تھے ۔عبدالرحمان پشاوری نے بھی اپنا نام مرہم پٹی کرنے کے لیے مددگاروں کی فہرست میں جیسے تیسے شامل کرالیا ۔ تب عبدالرحمان پشاوری چھبیس برس کے تھے ۔ عبدالرحمان پشاوری نے اپنے والد سے ترکی جانے کی اجازت نہیں لی کیونکہ انہیں علم تھا کہ مسلسل دل کی بیماری کی وجہ سے اجازت نہیں ملے گی ۔ عبدالرحمان نے اپنی کتابیں اور دوسرا سامان بیچا اور وفد کے دوسرے ارکان کی طرح ایک ہزار روپے کی رقم خرچ کے طور پر جمع کرادی ۔ 15 دسمبر 1912 کو بمبئی سے اطالوی بحری جہاز سرویگنا کے ذریعے استنبول روانگی ہوئی ۔ روانہ ہونے سے دو روز پہلے عبدالرحمان پشاوری نے اپنی بہن کو خط میں لکھا۔
ترکی جانے سے قبل بہن کے نام خط
’’یہ بیان کرنے سے عاجز ہوں کہ کن مشکلات سے اپنا سرمایہ سفر فراہم کرکے کس دل سے بلقان جارہاہوں ۔ میں نے اپنے تمام لباس ، سوٹ وغیرہ فروخت کردیے ہیں ۔ کتابیں اور جو فالتو چیزیں تھیں ، سب طالب علموں نے گراں قیمت پر خرید لیں ۔ مبلغ 2 سوروپے میرے رفیق فضل امین نے دیے ۔ اب میرے پاس صرف چند خاکی سوٹ اور 2 جوڑے کپڑے رہ گئے ہیں اور بس !بس دل مطمئن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرا دست سوال کسی کے سامنے نہ پھیلانے دیا ۔ میری مہربان بہن !گو کے میرے پاس اس وقت بہت کم رقم ہے لیکن غم نہ کر !کیونکہ شیر کبھی جنگل میں بھوکا نہیں رہتا۔ عبدالرحمان بھی جہاں جائے گا، اپنی روزی پالے گااور ان شااللہ عزت کی روزی حاصل کرے گا۔‘‘ترکی میں 3 محاذ اور ایک عبدالرحمان پشاوری 15 دسمبر 1912کو بمبئی سے اٹلی کے بحری جہاز ، سردیگنا کے ذریعے ڈاکٹر مختاراحمد انصاری کی قیادت میں استنبول پہنچا۔ ترکی پہنچنے کے بعد وفد تین حصوں میں بٹ گیا ۔ چند افراد استنبول میں رہے ، ان کے نگران عبدالرحمان صدیقی تھے ۔ باقی ارکان محاذ پر بھیج دیئے گئے ان کے انچارج چودھری خلیق الزمان تھے ۔ کچھ ارکان کو گیلی پولی کے محاذ پر بھیجا گیا ۔جہاں انہوں نے موبائل اسپتال قائم کیا ۔ ان کی نگرانی شعیب قریشی کررہے تھے ۔ مگر عبدالرحمان پشاوری واحد شخص تھے جو تینوں محاذوں پر جاتے تھے ۔ انہیں جب موقع ملتاوہ محاذ جنگ میں نکل جاتے اور توپ کے گولوں کی گھن گرج اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے ترک زخمی ڈھونڈتے اور کندھے پر لاد کر طبی امداد کے لیے لے آتے ۔ ترک سپاہی اور افسران عبدالرحمان پشاور ی کی ہمت وبہادری دیکھ کر ہمیشہ تعریف کرتے ۔ یہ وفد جون 1913 میں کامیاب مشن کے بعد واپس برصغیر روانہ ہوگیا ، خلیفہ سلطان محمد خامس نے وفد کو رخصت کیا لیکن عبدالرحمان پشاوری نے ترکی میں ہی قیام کا فیصلہ کیا کہ ابھی ترک بھائیوں کی مشکلات ختم نہیں ہوئیں ۔
ترک فوج میں شامل ہوکر جنگوں میں حصہ لیا
عبدالرحمان پشاوری نے ترک فوج میں شمولیت کا فیصلہ کیا ، انہیں فوجی تربیت کے لیے پہلے قسطنطنیہ اور پھر بیروت بھیجا گیا۔ اس دوران جنگ عظیم اؤل شروع ہوئی تو دوران تربیت ہی محاذجنگ پر جانے کا حکم ملا اور لیفٹیننٹ کا عہدہ دے کر انہیں تب کے ایک مشکل محاذ درہ دانیال بھیج دیاگیا۔ عبدالرحمان غازی کو پشتو ، اردو ، فارسی ، ترک زبان روانی سے بولتے تھے ۔ اس لیے جنگ عظیم اول کے خاتمے پر انہیں سفارتی مشن پر جرمنی اور بغداد بھیجا گیا۔ ترکی میں قیام کے دوران عبدالرحمان پشاوری کی ملاقات تب کے نیول چیف حسین رؤف بے سے ہوئی اور پہلی ملاقات میں ہی ایسا تعلق بنا کہ دونوں بھائی بن گئے ۔حسین رؤف بے بعد میں جدید ترکی کے پہلے وزیراعظم بھی بنے ۔
عبدالرحمان پشاوری افغانستان میں ترکی کے سفیر رہے
مصطفیٰ کمال پاشا نے جب انگورہ موجودہ انقرہ میں اپنی حکومت تشکیل دی تو افغانستان نے سب سے پہلے اسے قبول کیا۔ اس لیے مصطفی کمال نے بھی سب سے پہلے افغانستان سے اپنے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور عبدالرحمان پشاوری کو مارچ 1921 میں سپیشل انوائے کا عہدہ دے کر کابل بھیجا۔جسے جون 1922 میں سفیر کے عہدے میں بدل دیاگیا۔ وہ 1923 تک افغانستان میں ترکی کے سفیر رہے ۔کابل میں ایک بار انہیں برطانیہ کے سفیر سر ہنری ڈابس جو کہ پشاور میں کافی عرصہ رہ چکے تھے ۔ عبدالرحمان پشاوری کو پیشکش کی کہ آپ ہندوستان اپنے والد سے ملنے جانا چاہیں تو انتظام ہوسکتاہے ۔ اس پر عبدالرحمان پشاوری نے کہا ، جب تک ہندوستان میں انگریز ہیں ، اپنے وطن نہیں جاؤں گا۔ کابل میں قیام کے دوران عبدالرحمان غازی کو ایک بڑی خوشخبری تب ملی جب والد غلام ہمدانی اور محمد حسین اور یحیی خان سے دس سال کے بعد ملے ۔غلام صمدانی اپنے بیٹے کے وراثت میں حصے کے لیے 55 ہزار وپے بھی ساتھ لائے جنہیں شدید اصرار کے بعد عبدالرحمان نے اس شرط پر لیا کہ انہیں رفاعی کاموں میں صرف کرنے کی اجازت ہوگی اور پھر تمام رقم مختلف مدرسوں میں زیرتعلیم نادار طلبا کو عطیہ کردی ۔ 1923میں عبدالرحمان پشاوری کی جگہ ترک حکومت نے فخری پاشا کو سفیر مقرر کیا۔ فخری پاشا وہی تھے جنہوں نے مدینہ منورہ کی حفاظت کرتے ہوئے بہادری کی نئی داستان رقم کی تھی ۔ فخری پاشا کے سپرد سفارتی ذمہ داریاں کرکے عبدالرحمان پشاوری نے چند ماہ کابل میں قیام کیا اورپھر واپس ترکی چلے گئے۔
عبدالرحمان پشاوری اور رؤف بے کی نئی سیاسی راہیں
عبدالرحمان پشاوری ترکی پہنچے تو تب مصطفیٰ کمال پاشا کے رؤف بے کے ساتھ اختلافات شدت اختیار کرچکے تھے ۔ رؤف بے خلافت کے خاتمے اور سیکولر نظریات نافذ کرنے پر تحفظات رکھتے تھے ۔ آخرکار رؤف بے نے استعفیٰ دے دیا اور نئی سیاسی جماعت بنالی ۔ عبدالرحمان پشاوری نے بھی اپنے منہ بولے بھائی رؤف بے کا ساتھ دیا ۔ دونوں استنبول چلے گئے ۔ جہاں وہ مولانا عبیداللہ سندھی اور جمال الدین افغانی کو بھی ترک دوستوں میں راہ ورسم بڑھانے کا کام دیتے رہے ۔ استنبول میں 20 اور 21 مئ 1925 کی درمیانی رات اکو عبدالرحمان پشاوری اپنی رہائش گاہ جارہے تھے کہ انہیں نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر شدید زخمی کردیا۔ وہ کئی گھنٹے تک بے یارومددگار زخمی حالت میں پڑے رہے اور چوکیدار کا وہاں گزرہوا تو انہیں اٹھاکر ہسپتال پہنچایا گیا۔ 24 مئی 1925 کو بمبئی کرانیکل میں ایک خبر شائع ہوئی ، 20 اور 21 مئی کی درمیانی رات کو قسطنطنیہ میں ایک ہندوستانی عبدالرحمان پشاور ی کو جو ڈاکٹر انصاری کے طبی وفد کے ساتھ 1912 میں ترکی گئے تھے ۔ تین حملہ آوروں نے شدید طور پر زخمی کردیا۔ ایک گولی ان کے دائیں پھیپھڑے سے گزر کر ریڑھ کی ہڈی کو زخمی کرتی ہوئی نکل گئی ۔ ان کی حالت مخدوش ہے اگر وہ بچ بھئی گئے تو بدن کا زیریں حصہ ہمیشہ کے لیے بے کار ہوجائے گا ۔ اس وقت وہ ہسپتال میں قسطنطنیہ کے بہترین ڈاکٹروں کے زیرعلاج ہیں ۔
عبدالرحمان پشاوری کو گولیاں مارنے والے نامعلوم افراد کون تھے ؟
یہ معمہ آج تک حل نہ ہوسکا ۔ تب عام خیال یہ تھا کہ عبدالرحمان پشاوری اور حسین رؤف بے کی شکلیں خاصی ملتی تھیں تو دراصل قاتل انہیں رؤف بے کے دھوکے میں گولیاں مارگئے ، یہ توجہیہ آج بھی دی جاتی ہے لیکن عبدالرحمان پشاوری کا خاندان اور سیاسی مورخ اس مفروضے پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ رؤف بے پر بعد میں کبھی کوئی قاتلانہ حملہ نہیں کیا گیا۔ اور پھر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے پشاور کا یہ شیر جوان 1925میں ہسپتال میں دم توڑ گیا۔
عبدالرحمان پشاوری کے قبر پر لکھے الفاظ ؟
عبدالرحمان پشاور ی کو ماشکا کے قبرستان میں فوجی اعزاز کے ساتھ سپردخاک کیا گیا۔ ان کے ساتھ اتحاد عالم اسلام کے داعی جمال الدین افغانی کی قبر بھی تھی جو 1937میں میت افغانستان منتقل کردی گئی ۔ عبدالرحمان پشاوری کی قبر کے کتبے پر ترکی کے ساتھ پاکستان کا پرچم بھی نقش ہے ، جس پر لکھا ہے ۔ ’’سلام ہو ، عبدالرحمان ولد غلام صمدانی بے کی روح پر جو جنگ بلقان کے زمانے میں ہلال احمر ہند کے ساتھ استنبول آئے ۔ اور جنگ بلقان اور جنگ آزادی میں ترکی کے لیے اپنا خون بہایا اور 1925 میں ایک نامعلوم شخص سے شہید کردیے گئے ۔اور افغانستان میں ترکی کے سفیر رہے ۔ ترکی قوم اسے اپنا ہیرو مانتی ہے ۔ ‘‘
پہلے ترک وزیراعظم کی عبدالرحمان سے مثالی دوستی رہی
عبدالرحمان پشاوری کی رحلت کے بعد مارچ 1933 میں رؤف بے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں لیکچر دینے آئے ۔ لیکچر کے بعد ڈاکٹر مختار انصاری نے چائے کی دعوت دی ۔ اس محفل میں علیگڑھ کے زیرتعلیم ایک نوجوان نے جب بتایا کہ وہ عبدالرحمان پشاوری کا چھوٹا بھائی ہے تو رؤف بے لپک کر اٹھے اور اسے گلے لگالیا۔ رؤف بے علیگڑھ یونیورسٹی بھی گئے اور وہاں عبدالرحمان پشاوری کے کمرے کےسامنے یادگاری تختی کی رونمائی کی ۔ اس کے بعد وہ پشاور غلام صمدانی کے گھر گئے اور چار روز تک اپنے دوست ، رفیق اور منہ بولے بھائی عبدالرحمان پشاوری کے کمرے میں قیام کرکے یادوں کو تازہ کرتے رہے ۔
عبدالرحمان پشاوری نے 6 بال پر 6 وکٹ لیے ؟
عبدالرحمان پشاوری کی زندگی سے جڑا ایک دلچسپ واقعہ تو رہ ہی گیا ۔ یہ 1904 کی بات ہے جب پشاور بورڈ سکول اورکوہاٹ بورڈ سکول میں ایک ٹورنامنٹ کے دوران فائنل میں آمنے سامنے تھے ۔کوہاٹ بورڈ سکول کی ٹیم کو آخری اوور کی چھ بال پر چار رنز چاہیے تھے اور چھ وکٹ باقی تھے ۔پشاور بورڈ سکول کے کپتان نے بال عبدالرحمان پشاوری کو تھمائی اور پھر انہونی شروع ہوگئی ۔ عبدالرحمان پشاوری نے چھ بال پر چھ وکٹ لے کر میچ پشاور بورڈ سکول کو جتوا دیا۔ یہ تھے ہمارے تمہارے عبدالرحمان پشاوری جنہیں ترکی میں ترک لالہ اور خاندان میں چچا ترک کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ یہ وہ شخصیت ہیں جن کو ترک قوم اپنا ہیرو مانتی ہے اور پاکستان آنے والا چاہے وہ ترک صدر طیب اردوان ہویا ترک اداکار جلال آل سب عبدالرحمان پشاوری کا احترام سے نام لیتے ہیں ۔