غلط فیصلہ ایک کرے یا اکثریت غلط ہی رہے گا، جسٹس فائز عیسٰی

 

اسلام آباد(پاک ترک نیوز) سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ غلط فیصلہ ایک کرے یا اکثریت غلط ہی رہے گا۔
اسلام آباد میں منعقدہ آئین کی گولڈن جوبلی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم آئین کی تشریح کر سکتے ہیں، جب ناانصافی ہوتی ہے تو وہ زیادہ دیر تک نہیں ٹھہرتی، آئین کو اس طرح پیش نہیں کیا جاتا جس کا وہ مستحق ہے۔
جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ یہ کتاب صرف پارلیمان نہیں لوگوں کیلئے بھی اہم ہے، اس کتاب میں لوگوں کے حقوق ہیں، ایک جدوجہد کے بعد پاکستان1947 میں قائم ہوا اور دنیا کے نقشے قدم پر پہلی بار مسلم ریاست وجود میں آئی۔ہم آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی منا رہے ہیں، آئین پاکستان ہر شہری کیلئے ہے، 10 اپریل 1973 کو مشترکہ طور پر اسے اپنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں ایک ڈکٹیٹر آتا ہے، پھر کچھ عرصہ بعد خود کو دھوکا دینے لگتا ہے اور سوچتا ہے میں تو جمہوریت پسند ہوں، 30 دسمبر 1985 میں بھی مارشل لاء اٹھایا گیا۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہیے جھوٹ اور بداخلاقی کے نتائج کیا نکلتے ہیں، دسمبر 1971 میں پاکستان ٹوٹ گیا، یہ ملک اچانک نہیں ٹوٹا بلکہ اس کے لئے بیج بوئے گئے اور جو بیج بویا گیا اس نے ملک کے 2 ٹکڑے کر دیئے، 1971میں قوم کا سر جھکا ہوتا تھا اور قوم شرمندہ تھی، پھر 4 جولائی1977 کوایک شخص نے جمہوریت اور آئین پر وار کیا اور اس شخص نے 11 سال حکومت کی، پھرجہاز کے حادثے میں اس کا انتقال ہو گیا۔
سینئر جج نے کہا کہ پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط فیصلہ تھا، 1962 کے آئین میں جمہوریت کو ختم کر دیا گیا تھا، 12 اکتوبر 99 میں ایک آدمی نےسوچا تھا مجھ سے بہتر کوئی نہیں اور انہوں نے دوسرا وار 3 نومبر2007 میں کیا، مشرف صاحب نے خود ہی اپنے آپ کو آئینی تحفظ دے دیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اگرکوئی فیصلہ غلط ہے تو وہ غلط ہی رہے گا، تاریخ ہمیں7 بار سبق دے چکی ہے، تاریخ سے کچھ سیکھا نہیں تو وہ خود کو دہراتی رہے گی، ہم پر آئین کا بوجھ زیادہ ہے، ہر شہری آئین پاکستان کی کتاب کا پابند ہے، آئین کا بڑا حوصلہ ہے، ہمیں بھی چاہیے ہم اپنا حوصلہ دکھائیں۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More