اسلام آباد(پاک ترک نیوز) سپریم کورٹ میں بلے کا نشان بحال کرنے کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت جاری ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ براہ راست کیس سماعت کر رہا ہے، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ میں شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان اور قانونی ٹیم کمرہ عدالت میں موجود ہیں، پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، وکیل حامد خان، وکیل شعیب شاہین، چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں، اس کے علاوہ علی ظفر لاہور رجسٹری سے ویڈیو لنک پر موجود ہیں۔سماعت کے آغاز پر الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آ گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پشاور ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے؟ جس پر پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے عدالت کو جواب دیا کہ تفصیلی فیصلہ ابھی نہیں آیا۔
مخدوم علی خان نے بلے کا نشان واپس کرنے کا فیصلہ پڑھ کر سنایا، جس کے بعد تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ ہمیں کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیس کی فائل میں نے بھی نہیں پڑھی، انہوں نے حامد خان سے سوال کیا کہ آپ مقدمہ کیلئے کب تیار ہونگے؟ جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ پیر کو سماعت رکھ لیں۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کل امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ ہونے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پیر تک سماعت ملتوی کرنے کیلئے پشاور ہائی کورٹ کا حکم معطل کرنا پڑے گا، ہم تو ہفتے اور اتوار کو بھی سماعت کیلئے تیار ہیں۔
جس پر وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ اس صورت میں تیاری کیلئے کل تک کا وقت دیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ تحریک انصاف کے گزشتہ پارٹی انتخابات 2017 میں ہوئے تھے، پارٹی آئین کے مطابق تحریک انصاف 2022 میں پارٹی انتخابات کرانے کی پابند تھی، الیکشن کمیشن نے پارٹی آئین کے مطابق انتخابات نہ کرانے پر پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا۔
جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آئین میں الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا طریقہ کار کہاں درج ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ پہلے جمال انصاری بعد میں نیاز اللہ نیازی پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر بنے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے باقی ارکان کون تھے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ کوئی اور ممبر تعینات نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے سوال کیا یہ بات درست ہے؟ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کی یہ بات درست نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری کی دستاویزات کہاں ہیں؟۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ کیس کی تیاری کیلئے وقت اسی لئے مانگا تھا، الیکشن کمیشن کی اپیل قابل سماعت اور حق دعویٰ نہ ہونے پر بھی دلائل دوں گا، مناسب ہوگا پہلے حق دعویٰ اور قابل سماعت ہونے کا نکتہ سن لیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کیلئے پی ٹی آئی کے الیکشن کمیشن کی تشکیل قانونی طور پر درست نہیں تھی۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے استفسار کیا کہ کیا یہ حقیقت درست ہے؟ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ یہ بات درست نہیں الیکشن کمیشن کی اپیل قابل سماعت نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اپیل کے قابل سماعت ہونے کا اعتراض ہے تو حامد خان پہلے آپ دلائل دیں۔پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے الیکشن کمیشن کی اپیل پر اعتراض کر دیا۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کر سکتا، متاثرہ فریق نے اپیل کرنا ہوتی ہے الیکشن کمیشن نے نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن اپنے حکم کا دفاع نہ کرے، تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ کیا کوئی جج بھی اپنے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرسکتا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو ریگولیٹ کرنا اور شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، جس پر حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ کوئی ادارہ اپنے فیصلے کے دفاع میں اپیل نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسٹم کلیکٹر بھی اپنے فیصلے کیخلاف ہائی کورٹ میں اپیلیں کرتے ہیں، قابل سماعت ہونے کا سوال تو پھر پی ٹی آئی کی ہائی کورٹ اپیل پر بھی آئے گا، الیکشن کمیشن اپیل نہ کرے تو اس کے فیصلے بے معنی ہوجائیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، اپیل میں مؤقف اپنایا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کے خلاف ہے۔
یاد رہے کہ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیخلاف فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ تحریک انصاف کو بلے کاانتخابی نشان جاری کیا جائے۔