لندن (پاک ترک نیوز ) برطانیہ میں بھی تبدیلی کی لہر ،قبل ازوقت ہونے والے عام انتخابات میں 14سال بعد لیبر پارٹی نے میدان مارلیا، کنزرویٹو پارٹی کا اقتدار ختم ، جس کے بعد سر کئیر سٹارمر وزیراعظم ہونگے۔
برطانیہ میں عام انتخابات کے نتائج کا سلسلہ جاری ہے، 650 سے 643 نشستوں کے نتائج موصول ہوئے ہیں جس میں لیبر پارٹی 410 سیٹیں لے کر سب سے آگے ہے، کنزرویٹو 119 ، لیبرل ڈیموکریٹس 70 اور ریفارم پارٹی 8 نشستوں اور دیگر33 نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں ۔
برطانیہ میں حکومت سازی کے لیے پارلیمنٹ کی 650 نشستوں میں سے 326 نشستیں درکار ہوتی ہیں اور لیبر پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بریڈفورڈ ویسٹ سے لیبر رہنما پاکستانی نژاد ناز شاہ جیت گئیں جبکہ پاکستانی نژاد لیبر رکن یاسمین قریشی تیسری مرتبہ اپنی سیٹ کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوئیں ، لیبرپارٹی کی ہی نوشابہ خان نے کنزرویٹو پارٹی کےامیدوار کوشکست دیدی۔
ریفارم کے رہنما نائجل فراگ نے بھی کلاکٹن کی نشست پر کامیابی حاصل کر لی، انہوں نے 8 مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا اور پہلی مرتبہ کامیابی حاصل کی ہے۔
سابق لیبر رہنما جیریمی کاربن بھی آئلنگٹن کی نشست سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوگئے ہیں۔
ورکرز پارٹی کے سربراہ جارج گیلووی اپنی روچاڈیل کی نشست سے ہار گئے، جارج گیلووی اسی نشست پر لیبر رہنما سر ٹونی لائڈ کی موت کے بعد ضمنی انتخاب میں کامیاب ہوئے تھے، وہ 2003 سے 2015 تک تین مرتبہ ایم پی رہ چکے ہیں۔رشی سونک نارتھ یارک شائر سےاپنی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوگئے ۔
کنزرویٹیو پارٹی کے وزیراعظم رشی سونک کی کابینہ کے 11 وزرا الیکشن جیتنے میں ناکام رہے جبکہ سابق وزیراعظم لِز ٹرس بھی اپنے حلقے سے جیتنے میں ناکام رہیں، کنزرویٹو لارڈ خاتون پینی مورڈانٹ بھی اپنی نشست برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئے ۔
کنزرویٹو پارٹی کے دیگر ارکان اور وفاقی وزرا جنہیں حالیہ انتخابات میں شکست کا سامنا رہا،ان میں سیکرٹری تعلیم گیلین کیگن، سیکریٹری انصاف الیکس چاک، سیکریٹری ثقافت لوسی فریزر، سیکرٹری ٹرانسپورٹ اینڈ سائنس میشعل ڈونیلن بھی شامل ہیں۔
ویٹرن افیئرز کے وزیر جانی مرسر اور بریگزٹ یعنی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے ہامی رہنما جیکب ریس موگ بھی انتخابی دوڑ میں ہار گئے۔
برطانوی وزیرعظم رشی سونک نے انتخابات میں شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی نے کامیابی حاصل کی ہے جبکہ رشی سونک نے سر کیئر سٹارمر کو کامیابی پر مبارکباد بھی دی۔
اپنے حامیوں سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ’لیبر پارٹی نے یہ عام انتخابات جیتے ہیں، میں نے سر کیئر سٹارمر کو ان کی جیت پر مبارک باد دینے کے لیے فون کیا ہے، آج اقتدار کی منظم انداز میں منتقلی ہو گی۔‘
انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنے سپورٹرز سے خطاب میں سربراہ لیبر پارٹی سرکیئر اسٹارمر نے کہا کہ ملک کے عوام نے تبدیلی کا ووٹ دیا، عوام نے فیصلہ سنادیا وہ تبدیلی کیلئے تیار ہیں، اتنے بڑے مینڈیٹ کے ساتھ اتنی بڑی ذمہ داری بھی عوام نے دی، برطانوی عوام کی خدمت کریں گے۔
ان کاکہنا تھا کہ برطانوی عوام نے صفحہ بدل لیا ہے، انتخابات میں نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے، ہمیں فوری تبدیلی لانے کیلئے مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے۔
سربراہ لیبر پارٹی سرکیئر سٹارمر نے کہا کہ لیبر پارٹی بدل چکی ہے اور یہ تبدیلی ہمارے طرز حکومت میں نظر آئے گی، ملک پہلے اور پارٹی بعد میں ہوتی ہے، ہمیں بھاری مینڈیٹ ملا ہے، تبدیلی کیلئے برطانوی عوام کا شکریہ۔
انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 4515 امیدواروں نے حصہ لیا۔
اس سے قبل برطانوی انتخابات میں پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد برطانوی میڈیا کی جانب سے جاری پہلے نتیجے میں سنڈر لینڈ ساؤتھ سے لیبر پارٹی کی بریجٹ فلپسن کو کامیابی ملی تھی۔
شمالی لندن کی ہولبارن اینڈ سینٹ پینکراس کی نشست پر دوبارہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد سر کئیر اسٹارمر نے اپنے ووٹرز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ حلقہ میرا گھر ہے میرے بچے اسی جگہ پر بڑے ہوئے، میری اہلیہ بھی یہیں پیدا ہوئیں میرے لیے یہ کامیابی بہت بڑا اعزاز ہے۔
سرکاری نتائج کا اعلان آج ہی متوقع ہے جس کے بعد جیتنے والی جماعت کے رہنما کی ملاقات شاہ چارلس سوم کے ساتھ ہوگی جو حکومت بنانے کی دعوت دیں گے۔
برطانوی پارلیمانی نظام کے مطابق کسی بھی جماعت کو پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے 326 نشستیں درکار ہوتی ہیں ، اس سے قبل کنزرویٹو پارٹی نے سنہ 1906 میں 156 نشستوں کے ساتھ بدترین کارکردگی دکھائی تھی۔
حالیہ انتخابات کے نتائج سے لیبر پارٹی کو 2019 کے عام انتخابات کے مقابلے میں حیران کن واپسی ہوئی ہے جب 1935 کے بعد سے بائیں بازو کی جماعت کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔