لندن (پاک ترک نیوز)
چین 2023ء کے آخر تک آٹوموبائل کے دنیا کے سب سے بڑے برآمد کنندہ کے طور پر جاپان کو پیچھے چھوڑنے کے قریب ہے۔
کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز کے تجزیے پر مبنی حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین نے 2021 میں جنوبی کوریا اور 2022 میں جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ جس کے بعد چین کاروں کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ بن گیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اب جاپان کے ساتھ قریب آ رہا ہے۔رواں سال جون کی سہ ماہی میں اوسطاً 70,000 گاڑیوں کی آمدورفت رہی جو پچھلے سال کی اسی مدت میں تقریباً 171,000 تھی۔
موڈیز کے اقتصادی ماہرین نے لکھا ہے کہ اس رفتار سے چین سال کے آخر تک جاپان کو پیچھے چھوڑنے کے قریب پہنچ جائے گا۔جبکہ جاپان 2019 کے بعد سے دنیا میں کاروں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔
الیکٹرک گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی مانگ نے چین سے گاڑیوں کی کل برآمدات کو کرونا کے وبائی مرض سے پہلے کی سطح سے بڑھا دیا ہے۔
چین کی الیکٹرک گاڑیوں کی برآمدی آمدنی 2023 کی پہلی ششماہی میں گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں دگنی ہو گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں جاپان اور تھائی لینڈ سے کل آٹو برآمدات جن میں روایتی گاڑیاں اور الیکٹرک گاڑیاں شامل ہیں ابھی تک وبائی مرض سے پہلے کی سطح پر واپس نہیں آئی ہیں۔
چین لیتھیم آئن بیٹری سیل تیار کرنے میں مسابقتی فائدہ اٹھاتا ہے جسے موڈیز نے ملک کے کار سازوں کو برقی گاڑیوں کی پیداواری لاگت کے حوالے سے فائدہ اٹھانے کے ایک عنصر کے طور پر بیان کیا۔موڈیز کی پیشن گوئی کے مطابق چین دنیا کی نصف سے زیادہ لیتھیم سپلائی پیدا کرتا ہے، جس کی بدولت حریفوں جاپان اور جنوبی کوریا کے مقابلے مزدوری کی لاگت کم ہے۔ چین کے پاس دنیا کی دھات کو صاف کرنے کی صلاحیت کا نصف سے زیادہ ہے۔
دنیا کی کچھ بڑی آٹو کمپنیوں نے چین میں پیداواری سہولیات قائم کی ہیں، جن میں ٹیسلا اور بی ایم ڈبلیو شامل ہیں۔ تاہم موڈیز نے نوٹ کیا کہ غیر ملکی برانڈز نے چیری اور SAIC جیسے مقامی برانڈز کو پیچھے نہیں چھوڑا۔
رپورٹ کے مطابق حقیقت میں چین نے آٹو انڈسٹری میں جس رفتار کے ساتھ نئی ٹیکنالوجیز کو اپنایا ہے وہ بے مثال ہے۔
یاد رہےکہ گذشتہ سال دنیا بھر میں فروخت ہونے والی تمام مسافر کاروں میں الیکٹرک گاڑیوں کا حصہ تقریباً 30 فیصد تھا۔ جو کہ وبائی مرض سے پہلے کی مدت میں 5 فیصد سے بھی کم تھا۔