( تحریر: میاں افتخار رامے)
میرا صبح کا ناشتہ اکثر وبیشتر تائے کے ہوٹل سے آتا ہے ، میں سویا ہوتا ہوں تو تقریبا ایک بجے روزانہ دروازہ ناک ہوتا ہے تو میں نیند میں ہی پوچھتا ہوں کے کون ہے جواب آتا ہے سر ناشتہ لے کر آیا ہوں، کل مجھے کسی نے اٹھایا ہی نہیں اور میں بھی سویا رہا جب اچانک میری انکھ کھلی تو موبائل پر میں نے ٹائم دیکھا تودن کے ڈھائی بج رہے تھے ۔ نیند سے بیدار ہونے کے بعد میں بڑا پریشان ہوا کے آج تائے نے ناشتہ نہیں بھجوایا کیا وجہ بنی ، پہلے میں نے سوچا جلدی سے شاور لو اور افس کے لیے نکل جاو پھر خیال آیا کے فون پر تائے سے پوچھتا ہوں کے خیریت تو ہے نا ۔ میں نے تائے کا نمبر ڈائل کیا اور پوچھا کے ناشتہ کیوں نہیں بھیجا ، تائے نے جواب دیا کے میں نے ڈیلوری بوائے کو فارغ کردیا ہے میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کے بیٹا مہنگائی اتنی ہوگی ہے کہ اب اسے ساتھ رکھنا ممکن نہیں ،ہوٹل کا کرایہ، بجلی کا بل اور دیگر اخراجات اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کے بتا نہیں سکتا۔ میاں صاحب آپ میڈیا والے بھی اب غیریبوں کا ساتھ نہیں دے رہے۔ کبھی کسی ٹی وی جینل نے خبر چلائی ہے کہ مہنگائی میں اضافہ ہوگیا ہے اور غریب عوام سے پوچھا ہے کہ اب آپ کس حال میں ہیں۔ تائے کی باتیں سن کر میں پریشان سا ہوگیا اور کوئی جواب دیئے بغیر فون بند کردیا ۔ چند منٹ تو یہ ہی سوچتا رہا کے واقعی مہنگائی بہت زیادہ ہوگئی ہے اور ہماری صحافت کا کیا فائدہ جب ہم نیوٹرل خبر ہی نہیں لگا سکتے ۔ پھر میرے ذہن میں خیال آیا کے حامد میر ، سلیم صافی ، غریدہ فاروقی، عاصہ شیرازی جیسے بڑے نام خاموش کیوں ہیں انہوں نےکیوں چپ سادھ لی ہے۔اب یہ مہنگائی پر نا تو پروگرام کرتے ہیں اور نا ہی ٹویٹ کرتے ہیں پہلے تومیڈیا اور سوشل میڈیا پر انہوں نے ات مچائی ہوئی تھی لوگوں کا جینا حرام کیا ہوا تھا اب کیا وجہ ہے یہ کیوں نہیں بولتے ، یہ بھی تو صحافی ہیں اور لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے ہیں لیکن ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ خاموش ہیں۔ یہ وہ سوال تھے جو میں نے خود سے کیے لیکن مجھے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا ۔
ملک میں اس وقت مہنگائی کے ساتھ ساتھ سیاسی بحران بھی شدت اختیار کرچکاہے۔ عدالتی احکامات کے بعد صدر نے بھی 30 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے الیکنش کروانے کی منظوری دے دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن ہوتے ہیں یا خزانہ خالی ہونے کا بہانہ بنا کر انہیں ملتوی کردیا جاتا ہے۔
ن لیگ کے دس ماہ کے دورے حکومت میں ڈالر کے ریٹ میں 100 سے زیادہ کا اضافہ ہوچکا ہے ۔ جب ڈالر ایک یا دو روپے نیچے گرتا ہے تو اسحاق ڈار بلے بلے کے نعرے لگائے جاتے ہیں لیکن جب ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو مریم نواز سمیت پی ڈی ایم کے تمام رہنما سارا ملبہ پچھلی حکومت یعنی عمران خان پر ڈال کر خود بری الزمہ ہوجاتے ہیں ۔ مہنگائی میں اضافے کی بڑی وجہ ڈالر میں اضافہ بھی ہے ۔ پہلے اس حکومت نے عوام کو خوش کرنے کے لیے ڈالر کو مصنوعی طریقے سے روکے رکھا اب جب ایل سیز نہیں کھل رہی تھیں تو پھر یکددم ڈالر کا ریٹ بڑھا دیا جس سے بجلی ، پٹرول سمیت دیگر اشیاء میں بے تحاشہ اضافہ ہوا اورآے والے دنوں میں مزید ہوگا ۔ ۔
موجودہ حکومت کا آئی ایم ایف سے پتہ نہیں معاہدہ ہوگا یا نہیں لیکن حکمران جماعت نے عوام کا کچومر نکال دیا ہے اور لوگوں کو مسلسل یہ ہی لولی پاپ دیا جارہا ہے کہ ہم مہنگائی آئی ایم ایف کے کہنے پر کررہے ہیں لیکن حقیقت میں ابھی تک تو اسٹاف لیول کا معاہدہ بھی نہیں ہوا۔ لیکن ڈار صاحب مسلسل چھ ماہ سے ہر ہفتے ٹی وی پر بیٹھ کرایک ہی جھوٹ بار بار رپیٹ کرہے ہیں کہ بہت جلد ائی ایم ایف سے معاہدہ ہونے والا ہے۔ڈار صاحب ڈالر سے انتا ڈرے ہوئے ہیں کہ صحافی نے اسحاق ڈار سے سوال کیا کے کیاآپ استفعی دینے جارہے ہیں تو ڈار صاحب کا کہنا تھاآپ کو تکلیف ہے میرے کام کرنے میں؟ ڈار صاحب مہنگائی اور جس تشویشناک صورتحال سے پاکستان گزر رہا ہے خدا کرکے کے آپکو اس تکلیف کا احساس ہوجائے اور آپ پاکستان کو اس نازک صورتحال سے نکلنے کے لے اپنی جماعت اور مفادات سے اگےدیکھیں۔
بیرون ممالک میں اگر مہنگائی ہوتی ہے تو عوامی سہولتوں اور تنخواہوں میں بھی اضافہ کر دیا جاتا ہے لیکن یہاں ڈیلی ویجز اور ماہانہ تنخواہ دار طبقہ اسی امید پر زندہ ہے کہ شاید آئندہ ماہ ہماری اجرتوں میں بھی اضافہ ہو جائے ۔ لیکن حکومت وزیروں، مشیروں کی سہولیات اور عیاشیوں پر تو اربوں کھربوں روپے خرچ کر سکتی ہے لیکن حقیقت میں غریب عوام کو جھوٹے اور کھوکھلے وعدوں اور دعووں کے سوا کچھ نہیں دے سکتی۔۔۔۔