بیجنگ (پاک ترک نیوز)
2021میں منظر عام پر آنے والی اڑنے والی کار کے پیچھے ٹیکنالوجی جو اصل میں یورپ میں تیار کی گئی تھی اور کامیابی کے ساتھ اسکی آزمائشی پرواز بھی کی گئی تھی۔ اب ایک چینی فرم نے خریدلی ہے۔
جرمن کمپنی بی ایم ڈبلیو کےانجن اور عام ایندھن سے چلنے والی ائر کار نے2021 میں سلوواکیہ کے دو ہوائی اڈوں کے درمیان 35 منٹ تک پرواز کی تھی۔ جس میں ٹیک آف اور لینڈنگ کے لیے رن وے کا استعمال کیا گیا تھا۔اسےایک کار سے ہوائی جہاز میں تبدیل ہونے میں صرف دو منٹ لگے تھے۔اب اس کے ڈیزائن کی بنیاد پر بننے والی گاڑیاں چین کے مخصوص جغرافیائی علاقے میں استعمال ہوں گی۔
ہی بی جیان ژن فلائنگ کار ٹیکنالوجی کمپنی جس کا صدر دفترچانگ ژو میں ہے نے چین میں ائر کار کی تیاری اور استعمال کے خصوصی حقوق خریدے ہیں۔
ائیر کار بنانے والی کمپنی کلین ویژن کے کوفاؤنڈر اینٹون زجاک نے کہا ہےکہ فرم نے ایک اور سلوواک طیارہ ساز کمپنی سے پچھلے حصول کے بعد اپنا ہوائی اڈہ اور فلائٹ اسکول بنایا ہے۔
ای وی گاڑیوں کی ترقی میں راہنمائی کرنے کے بعد چین اب فلائنگ ٹرانسپورٹ کو فعال طور پر تیار کر رہا ہے۔ اسی ضمن میںپچھلے مہینے آٹو فلائٹ نامی فرم نے شینزین اور زوہائی شہروں کے درمیان مسافر بردار ڈرون کی آزمائشی پرواز کی۔ یہ سفر جس میں کار سے تین گھنٹے لگتے ہیں 20 منٹ میں مکمل کیا گیا۔ البتہ آزمائشی پرواز کے دوران ڈرون طیارے میں کوئی مسافر نہیں تھا۔اسی طرح 2023 میں چینی فرم ای ۔ ہینگکو چینی حکام نے اس کی الیکٹرک فلائنگ ٹیکسی کے لیے حفاظتی سرٹیفکیٹ سے نوازا تھا۔
تاہم ڈرون مسافر طیاروں کے برعکسائر کار عمودی طور پر ٹیک آف اور لینڈ نہیں کرسکتی اور اسے رن وے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کلین ویژن نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ اس نے یہ ٹیکنالوجی کتنی قیمت میں فروخت کی ہے۔ ائر کارکو 2022 میں سلواک ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی طرف سےپرواز کی اہلیت کا سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا تھا۔اس کے باوجودانفراسٹرکچر، ریگولیشن اور ٹیکنالوجی کی عوامی قبولیت کے حوالے سے ٹرانسپورٹ کی اس شکل میں اب بھی کافی رکاوٹیں ہیں۔اسی طرح کے خدشات الیکٹرک کاروں پر لاگو ہوتے ہیں – جس میں چین اب عالمی مارکیٹ لیڈر بن گیا ہے۔اب سلوواکین ایئر کار کی فروخت سے بھی سوالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ آیا چین فلائنگ کاروں کے ساتھ بھی ایسا کرنے کے لیے تیار ہے۔