فن لینڈ نیٹو اتحاد کا 31 واں رکن بن گیا

 

برسلز (پاک ترک نیوز ) فن لینڈ نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن ( نیٹو ) سکیورٹی اتحاد کا 31 واں رکن بن گیا۔
فن لینڈ کی نیٹو میں باضابطہ شمولیت کے بعد نیٹو ہیڈکوارٹرز کے باہر فن لینڈ کا پرچم لہرانے کی تقریب منعقد کی گئی جس میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سمیت دیگر رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔
فن لینڈ کے وزیر خارجہ نے الحاق کی دستاویز امریکی وزیر خارجہ کے حوالے کیں جنہوں نے فن لینڈ کو رکن قرار دیا جس کے بعد نیٹو کے نئے ہیڈکوارٹر کے سامنے چمکتی دھوپ میں فن لینڈ کا سفید اور نیلا جھنڈا 30 دیگر جھنڈوں کے دائرے میں شامل ہو گیا۔
فن لینڈ کے صدر ساؤلی نینیستو نے اپنے ملک کے لیے ایک نئے دور کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ فن لینڈ کے لیے ایک عظیم دن ہے، فن لینڈ ایک قابل اعتماد اتحادی ہو گا اور اس کی رکنیت کسی کے لیے خطرہ نہیں ہو گی، سکیورٹی اور استحکام وہ عناصر ہیں جو ہم بہت شدت سے محسوس کرتے ہیں، اگر لوگ محفوظ مستحکم حالات میں رہ سکتے ہیں تو یہ خوشگوار زندگی کا بنیادی عنصر ہے۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے کہا کہ الحاق سے فن لینڈ محفوظ اور نیٹو مضبوط ہو جائے گا۔
فن لینڈ کی شمولیت سے شمال مشرق میں روس سے ملحقہ 1300 کلومیٹر سے زائد علاقہ مغربی فوجی اتحاد کے دائرہ اختیار میں آگیا ہے جبکہ فن لینڈ کا الحاق روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے لیے ایک دھچکا ہے، انہوں نے یوکرین پر اپنے مکمل حملے سے پہلے بارہا نیٹو کی توسیع کی مخالفت کی تھی۔
فن لینڈ کی نیٹو اتحاد میں باضابطہ شمولیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے روسی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ نیٹو اتحاد میں شامل ہوکر فن لینڈ نے خود کو بین الاقوامی طور پر ایک منفرد پہچان دینے والی آزادی کا خاتمہ کردیا ہے۔
روسی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ اب فن لینڈ نیٹو کا ایک چھوٹا سا رکن بن گیا ہے جس کے پاس نیٹو کے کسی فیصلے پر اثرانداز ہونے کی معمولی طاقت بھی نہیں ہوگی، نیٹو میں شامل ہوکر فن لینڈ نے اپنے بین الاقوامی تعلقات کی ساری صلاحیت گنوا دی ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے نیٹو کی توسیع کو اپنی سلامتی اور قومی مفادات کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ روس ، فن لینڈ میں جاری تمام معاملات کو قریب سے دیکھ رہا ہے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More