(تحریر میاں افتخار رامے)
میں آفس میں اپنی سیٹ پر بیٹھا مریم نواز کے خطاب کا انتظار کررہا تھا جو اس نے فیصل آباد میں مسلم لیگ ن کے ورکرز کنونشن سے کرنا تھا۔ اس دوران ایک دوست مجھ سے ملنے آیا تو حال احوال کے بعد میں نے پہلا سوال ہی ضلِ شاہ کے قتل کے بارے میں کیا کہ اگر 2002 میں قانون میں تبدیلی کرکے پولیس کے اختیارات میں اضافہ نا کیا جاتا تو شاید ضلِ شاہ جیسے بے گناہ لوگوں کا قتل عام اتنا آسان نا ہوتا جتنا آج کہ دور میں ہے ۔ اس نے میری ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب میں آپ کی بات سے ایگری کرتا ہوں 2002 کے بعد واقعی ایسے واقعات نے تیزی پکڑی ورنا پہلے پولیس کو فائر کرنے یا کسی کو گرفتارکرنے سے پہلے مجسٹریٹ کی اجازات درکار ہوتی تھی۔ اگر مجسٹریٹ اجازات دیتا تو پولیس کی جانب سے رد عمل آتا تھا ۔ تب بے گناہ شہریوں کو اٹھانے اور تشدد کرکے ہلاک کرنے جیسے واقعات بھی رونما نہیں ہوتے تھے۔ جس نے بھی قانون تبدیل کیا غلط کیا کیونکے یہ انگریز کا بنایا ہوا قانون تھا جو اب بھی یورپ میں لاگو ہے۔ آپ نے اکثر انگریزی فلموں میں دیکھا ہوگا کہ پولیس کے ساتھ ایک پنٹ کوٹ والا بندہ ہوتا ہے جو دوسری پارٹی سے مذاکرات کرتا ہے ۔ پولیس کو اس وقت تک مداخلت کی اجازات نہیں ہوتی جب تک یہ پنٹ کوٹ والا مجسٹریٹ گرین سگنل نہیں دیتا۔ یہ پڑھا لکھا بیورکریٹ ہوتا ہے جسے ہر معاملے کو ڈیل کرنے کا شعور ہوتا ہے۔ لیکن پولیس کے قانون میں تبدیلی کے بعد پچھلے 20 سالوں سے جو کچھ ہو رہا ہے اس کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی تھی۔اب آپ پچھلے چند سالوں میں ہونے والے مارچ ، جلسے جلوسوں پر نظر دوڑایں تو جو کام پولیس سے لیا جارہا ہے یقینا عام انسان کی برداشت سے باہر ہے۔ پولیس اور سیکیورٹی ادارے جلسے جلوسوں کی اڑ میں وہ ہی کچھ کرتے آرہے ہیں جو ضلِ شاہ کے ساتھ کیا۔ یہ ایک ایسا اندوہناک واقعہ ہے جسے سن کر پورے ملک میں سوگ کی فضا تاحال برقرار ہے اور ہر انکھ اشکبار ہے۔ اس سے پہلے نامور صحافی ارشد شریف، سنیٹر اعظم سواتی، شہباز گل ، جمیل فاروقی اور عمران ریاض کے ساتھ جوکچھ ہوا پوری قوم اس کی بھی گواہ ہے لیکن ڈرٹی ہیری جیسے ان کرداروں کو نا توموت کا خوف ہے اور نہ ہی قیامت کے روز ہونے والے حساب کا ڈر۔
گفتو شنید کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ اتنے میں مریم نواز خطاب کے لیے اسٹیج پر آگئیں ہم سب چھوڑچھاڑ کر مریم نواز کو سننے لگے مریم نواز کا خطاب ہمیشہ کی طرح عمران خان سے شروع ہوا اور خوب تنقید کے نشتر چلانے کے بعد عمران خان پر ہی اختتام پذیر ہوا۔ مریم کا کہنا تھا کہ الیکشن ضرور ہوگا لیکن پہلے احتساب ہوگا اور ترازو کے دونوں پلڑے برابر کئے جائیں گے۔ یہ بات سن کر میرے زمین وآسمان گھوم گئے میں سمجھ گیا کہ آئندہ دنوں میں یا تو عمران خان نا اہل ہو جائے گا یا پھر اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔ مریم صاحبہ آپ لوگوں کے ناپاک عزئم کو پورا پاکستان جانتا ہے۔ آپ کے دلوں میں عمران خان کا خوف اس قدر بیٹھ گیا ہے کہ الیکشن ملتوی کروانے کے لیے پہلے اسے گرفتارکرنے کی بھرپور کوشش کی گئی جو بری طرح ناکام ہوئی پھر ریلی میں لاشیں گرانے کا بھیانک منصوبہ بنایا گیا۔ وہ تو ضلِ شاہ کی شہادت کے بعد عمران خان نے بروقت اور بہترین فیصلہ لیتے ہوئے ریلی ختم کر کے وہ منصوبہ بھی ناکام بنا دیا ۔لیکن منصوبہ ساز عمران خان کو گرانے کے لیے اپنی سازشوں کے جوڑ توڑ میں لگے ہوئے ہیں تاکہ کسی نا کسی طرح جلد سے جلد اسے اپنے راستے سے ہٹایا جاسکے۔
بطور صحافی میں نے اپنے کرئیر میں سیکڑوں پوسٹ مارٹم رپوٹیں دیکھی ہیں لیکن ضلِ شاہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ظلم کے جو پہاڑ توڑے گئے۔ اتنا تشدد اور ایسی خطرناک پوسٹ مارٹم رپورٹ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ یہ کون ہیں کس کے کہنے پر کس کا انتقام لے رہے ہیں۔ ایک معصوم اور بھولے بھالے انسان کو ننگا کر کے اس کے نازک اعضاء پر بھی تشدد کیا گیا۔ اس کے جسم پر 26 زخم تھے جبکہ دماغ ،لیور اور تلی تک کو ڈیمج کر دیا گیا تھا۔ اتنے بھیانک تشدد کے بعد ضلِ شاہ مقتول کی قتل کی ایف آئی آر میں عمران خان کو نامزد کردیا گیا ہے ایف آئی آر کو دیکھتے ہی مجھے ذوالفقار علی بھٹو یاد آئے۔ انہیں 1979 کو نواب احمد خان کے قتل کے مقدمے میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ بظاہر تو وہ ایک قتل کا مقدمہ تھا مگر اس سے جڑے بعض کرداروں کے ذہن میں پلتی سازشوں ،بغض اور ہوس اقتدار کی بدولت تاریخ کے کٹہرے میں یہ ’مقدمے کا قتل‘ قرار پایا۔ بھٹو صاحب نے اپنے خلاف درج ہونے والی قتل کی جھوٹی ایف آئی آر کو معمولی سی ایف آئی آر جانا انہیں کیا معلوم تھا یہی ایف آئی آر ان کی موت کا حکمنامہ ثابت ہوگی، خدشہ ہے کہ عمران خان بھی بھٹو کی طرح اس ایف آئی آر کو ذیادہ سنجیدہ نہیں لیں گے۔ بھٹو کو جھوٹے قتل کیس میں ملوث کرنے والوں کی باقیات آج اسی سوچ کی آبیاری میں مصروف عمل ہیں کہ ایک سیاسی کارکن کے پراسرار قتل کو عمران خان کے کھاتے میں ڈال کر تاریخ دہرانا چاہتے ہیں۔۔۔