بھارتی سیکورٹی فورسز کا کسان مظاہرین پر آنسو گیس کا اندھادھند استعمال

نئی دہلی(پاک ترک نیوز)
بھارتی سکیورٹی فورسز نے حکومت کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد نئی دہلی کی طرف مارچ کرنے والے ہزاروں کسانوں کو روکنے کے لیے آنسو گیس کا اندھا دھند استعمال کیا ہے۔ جس سے درجنوں کسان شدید زخمی ہو ئے ہیں۔
بھارتی نشریاتی اداروںکی رپورٹس کے مطابق منگل کے روز "دھلی چلو”مارچ میں شامل ہزاروں کسانوں کو روکنے کے لئے پولیس نے دارالحکومت سے تقریباً 200 کلومیٹرشمال میں امبالا کے قریب مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں پورے علاقے میں آنسو گیس کے گھنے بادل چھا گئے۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت زیادہ سے زیادہ امداد اور ضمانتیں پیش کرے۔
ادھرپولیس نے نئی دہلی میں داخل ہونے کے متعدد مقامات کو خاردار تاروں، اسپائکس اور سیمنٹ کے بلاکس کی رکاوٹیں کھڑی کرکے سیل کردیاہے۔ دارالحکومت میں بڑے اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور پڑوسی ریاست ہریانہ کے کچھ اضلاع میں انٹرنیٹ خدمات معطل کر دی گئی ہیں۔
تاہم کسانوں کے ایک گروپ کے رہنماسرون سنگھ پنڈھر نے مذاکرات کےبے نتیجہ خاتمے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہہم کسی بھی رکاوٹ کو توڑنا نہیں چاہتے۔ ہم مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ لیکن اگر وہ کچھ نہیں کرتے تو ہم کیا کریں گے؟ یہ ہماری مجبوری ہے۔پنڈھر نے دعویٰ کیا کہ حکومت جس نے تین سال پہلے کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مگربعد میں اس نے انکے مطالبات پر کوئی فیصلہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
بھارتی نشریاتی ادارےپنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش کی آس پاس کی ریاستوں سے مختلف سڑکوں پر دارالحکومت کی طرف بڑھتے ہوئے سینکڑوں ٹریکٹروں کے کالم دکھارہے ہیں۔ جن پر ہزاروں کی تعداد میں کسان سوار ہیں۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، ہندوستان کے 1.4 ارب لوگوں میں سے دو تہائی اپنی روزی روٹی زراعت سے حاصل کرتے ہیں۔ جو کہ ملک کی جی ڈی پی کا تقریباً پانچواں حصہ ہے۔ چنانچہملک میں کسانوں کو ان کی بڑی تعداد کی وجہ سے سیاسی دباؤ ڈالنے کی طاقت حاصل ہے۔ اب نئے مظاہروں کا خطرہ اپریل میں شروع ہونے والے بھارت کے قومی انتخابات سے پہلے آیا ہے۔
یاد رہے کہ”چلو دہلی” مارچ 2021 میں احتجاج کی بازگشت ہے جب کسانوں نے یوم جمہوریہ کے موقع پر رکاوٹیں توڑ کردہلی میں مارچ کیا تھا۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More