اسلام آباد(پاک ترک نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری کی رہائی کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کےمطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں فواد چودھری کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔فواد چودھری کے وکیل بابر اعوان، فیصل چودھری ایڈووکیٹ اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے فواد چودھری کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔فواد چودھری کے وکیل فیصل چودھری کا کہنا تھا کہ فواد چودھری بکتربند گاڑی میں موجود ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے حکم پر فواد چودھری کو عدالت میں پیش کردیا گیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے ایک آرڈر جاری کیا جس پر عمل نہیں ہوا، آرڈر نہ آئی جی اسلام آباد اور نہ ہی کسی اور نے دیکھا، جب آپ نے انہیں پکڑا تو اس وقت آرڈر دکھایا گیا، آپ کے پاس آرڈر کی تصدیق کے کئی طریقے تھے، 9 مئی خوشگوار دن نہیں تھا، خدشات درست تھے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ درخواست گزار رہائی کے بعد انڈر ٹیکنگ دیں کہ وہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی نہیں کریں گے، یہ بھی یقین دہانی کرائیں کہ قانون کی خلاف ورزی نہیں کریں گے، انڈر ٹیکنگ کی خلاف ورزی ہوئی تو ان ارکان پارلیمان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی، اس بنیاد پر ارکان پارلیمان نا اہل بھی ہوسکتے ہیں، عدالت وقت دے رہی ہے کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور آئی جی اس معاملے کو دیکھیں۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری کا کہنا ہے کہ ملک کو نقصان ہو رہا ہے بہتر ہے صلح کی طرف جائیں۔
پیشی کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے کہا کہ ملک بھر میں 8 سے 10 ہزار افراد گرفتار ہیں، ملک کا نقصان ہو رہا ہے بہتر ہے معاملہ صلح کی طرف جائے۔
آرمی اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت گرفتاریوں سے متعلق سوال کے جواب میں فواد چودھری کا کہنا تھا کہ اپنے لوگوں کیخلاف کیسے مقدمات چلائیں گے، سیاسی درجہ حرارت نیچے نہیں آ رہا، پی ٹی آئی کی دیگر قیادت بھی اڈیالہ جیل میں ہے۔
اس موقع پر ایک صحافی نے پوچھا کہ رویہ کیسا رہا کیا دباؤ ڈالا جا رہا ہے؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ضمانت ہو لینے دیں بعد میں بات کرتے ہیں۔
فواد چودھری نے کہا کہ فوجی تنصیبات پر حملے کی پہلے بھی مذمت کی ہے، ہم جیل میں تھے، گرفتار تھے، نہیں پتا باہر کیا ہوا۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ جیل میں اگر کوئی اہم ملاقات ہوتی تو یہ حال ہوتا؟ دوران گرفتاری کل فیملی سے رابطہ ہوا، کیس ہی مذاق ہے، یہاں سے نکلیں گے تو کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لیں گے، 8 ہزار افراد اس وقت جیلوں میں ہے۔