اسرائیل حماس کیخلاف 45فیصد تک گونگے بموں کا استعمال کر رہا ہے،امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ

واشنگٹن(پاک ترک نیوز)
امریکی انٹیلی جنس نے انکشاف کیا ہے کہاسرائیل نے 7 اکتوبر سے حماس کے ساتھ اپنی جنگ میں غزہ میں جو فضائی اور زمینی گولہ باری کی ہے اس میں سے تقریباً نصف بم ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت نہ رکھنے والے بموں پر مشتمل تھی جنہیں "گونگے بم” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس کی تشخیص امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کے دفتر نے اپنی مرتب کردہحکومت کے لئے رپورٹ میں کی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابقذرائع جنہوں نے اس خفیہ رپورٹ کودیکھا ہے کا کہنا ہے کہاس میںا گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے زمین سے زمین پر مار کرنے والے 29,000 بموںمیں سے تقریباً 40-45فیصد غیر رہنمائی کے حامل تھے۔غیر ہدایتی گولہ بارود عام طور پر کم درست ہوتے ہیں اور عام شہریوں کے لیے زیادہ خطرہ بن سکتے ہیں، خاص طور پر غزہ جیسے گنجان آباد علاقے میں جس شرح سے اسرائیل گونگے بموں کا استعمال کر رہا ہے اس سے شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
منگل کو صدر جو بائیڈن نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں "اندھا دھند بمباری” میں مصروف ہے۔جس کے نتیجے میں عالمی برادری میں اسکے دوستوں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔مگراسرائیل کو اسکی کوئی پرواہ نہیں۔
امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے اسرائیلی فضائیہ کے ترجمان نیر دینار نےکہا کہہم استعمال کئے جانے والےگولہ بارود کی قسم پر توجہ نہیں دیتے۔ جبکہ اسرائیلی ترجمان میجر کیرن ہاجیوف نے دعویٰ کیا کہ بین الاقوامی قانون اور اخلاقی ضابطہ اخلاق پر کاربند فوج کے طور پر، ہم شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے وسیع وسائل صرف کر رہے ہیں جنہیں حماس انسانی ڈھال کےطور پراستعمال کر رہی ہے۔ ہماری جنگ حماس کے خلاف ہے نہ کہ غزہ کے لوگوں کے خلاف۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل اس شرح سے غیر گائیڈڈ گولہ باری کا استعمال کر رہا ہے جس شرح سے امریکہ کا خیال ہے کہ وہ ہیں۔ تو اس سے اسرائیلی دعوے کی نفی ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اور یہ یقیناً انتہائی حیران کن اور فکر مند ی والی بات ہے۔ماہرین نے مزید کہا کہ یہ ایک بڑے شہری نقصان کا مسئلہ ہے اگر ان کے پاس یہ درستگی نہیں ہے۔ اور اگر آپ اس شک کا فائدہ بھی نہیں دے سکتے کہ یہ ہتھیار دراصل وہیںگر رہا ہے جہاں اسرائیلی افواج کا ارادہ تھا۔تو اسے منصوبہ بندی کے ساتھ نسل کشی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More