فوجی عدالتیں؛ کسی ملزم کو سزائے موت یا 14 سال سزا نہیں دی جائیگی، اٹارنی جنرل

اسلام آباد(پاک ترک نیوز) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت جاری ہے، اٹارنی جنرل منصور عثمان دلائل دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔درخواستوں پر سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان روسٹرم پر آگئے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مجھے ہدایت دی تھی اور میں نے 9 مئی کے پیچھے منظم منصوبے کی بات کی تھی، میں نے تصاویر بھی عدالت میں پیش کی تھی اور ہم بہت محتاط ہیں کہ کس کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلنا ہے، 102 افراد کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے لیے بہت احتیاط برتی گئی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 9 مئی جیسا واقعہ ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا اور 9 مئی جیسے واقعات کی مستقبل میں اجازت نہیں دی جا سکتی، میاںوالی ایئربیس میں جب حملہ کیا گیا اسوقت جنگی طیارے کھٹرے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجھ سے شفاف ٹرائل کی بات کی گئی تھی، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کیس فیصلے میں ایک فرق ہے، جب عام شہری سول جرم کرے تو مقدمہ عام عدالتوں میں چلتا ہے لیکن اکیسویں ترمیم کے بعد صوتحال تبدیل ہوئی۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کسی فوجی کا جھگڑا کسی سویلین کے ساتھ ہو تو ٹرائل کیسے ہوگا؟ قانون بلکل واضح ہونا چاہیے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سویلین پر فوجی ایکٹ کے اطلاق کے لیے اکیسویں ترمیم کی گئی تھی، سویلین پر آرمی ایکٹ کے اطلاق کے لیے شرائط رکھی گئی، اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت قائم کردہ فوجی عدالتیں مخصوص وقت کے لیے تھیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آپ جیسے دلائل دے رہے ہیں لگتا ہے اپنی ہی کہی ہوئی بات کی نفی کر رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے آرمی ایکٹ 2015 کے سیکشن 2(1) بی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ 2015 میں زیادہ زور دہشتگرد گروپس پر دیا گیا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایکٹ میں افراد کا تذکرہ بھی موجود ہے اور اکیسویں آئینی ترمیم سے قبل بھی آرمی ایکٹ کا سویلین پر اطلاق کا ذکر موجود تھا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل سے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی حقوق ختم ہوگئے ہیں، کیا پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرسکتی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی بلکل پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرسکتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ یہ کھبی نہیں ہوسکتا کہ بنیادی انسانی حقوق کبھی آرہے ہیں کبھی جا رہے ہیں، قانون بنیادی حقوق کے تناظر میں ہونا چاہیے، آپ کی دلیل یہ ہے کہ ریاست کی مرضی ہے بنیادی حقوق دے یا نہ دے۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اکیسویں ترمیم میں عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ بنیادی حقوق کو صرف قانون سازی سے ختم کیا جاسکتا ہے اس بارے میں سوچیں، پاکستان کے نظام عدل میں عدلیہ کی آزادی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور عدلیہ کی آزادی کو سپریم کورٹ بنیادی حقوق قرار دے چکی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم ٹرائل کورٹ پر سب کچھ نہیں چھوڑ سکتے، 2015 میں اکیسویں ترمیم کے زریعے آئین پاکستان کو ایک طرف کر دیا گیا مگر اب ایسا نہیں ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ بریگیڈیئر ایف بی علی کیس ریٹائرڈ فوجی افسران سے متعلق تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا پروسس بتاؤں گا پھر عدالتی سوال پر آؤں گا، جس کمانڈنگ آفیسر کی زیر نگرانی جگہ پر جو کچھ ہوتا ہے اس کی رپورٹ دی جاتی ہے، رپورٹ جی ایچ کیو ارسال کی جاتی ہے، آرمی ایکٹ رولز کے تحت ایک انکوائری شروع کی جاتی ہے اور اگلے مرحلے میں ملزم کی کسٹڈی لی جاتی ہے۔
دوران سماعت تیز بارش سے عدالتی کارروائی میں خلل آیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تیز بارش کے سبب آپ کی آواز نہیں آ رہی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا معزز ججز کو میری آواز آرہی ہے۔ اس پر ججز نے مسکرانا شروع کر دیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزم کی کسٹڈی لینے کے بعد شواہد کی سمری تیار کر کے چارچ کیا جاتا ہے، الزمات بتا کر شہادتیں ریکارڈ کی جاتی ہیں، اگر کمانڈنگ افسر شواہد سے مطمئن نہ ہو تو چارچ ختم کر دیتا ہے اور ملزم کو بھی چوائس دی جاتی ہے کہ وہ اپنا بیان ریکارڈ کروا سکتا ہے۔ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے دوران ملزم کسی لیگل ایڈوائزر سے مشاورت کرسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کو اپنے دفاع کے لیے فوجی عدالتوں میں بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں بھی فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے، سزائے موت کی صورت میں فیصلہ دوتہائی سے ہونا لازمی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ یہاں یہ معاملہ اس کیس سے متعلق نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ بادی النظر میں گرفتار 102 ملزمان میں کسی کو سزائے موت یا 14 سال سزا نہیں دی جائے گی، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کا مطلب ہے کہ سیکشن 3 اے کا کوئی کیس نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا کوئی کیس نکل سکتا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا بیان آج تک کی اسٹیج تک کا ہے۔

اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے واقعات پر ملٹری کورٹس کے ٹرائل کے فیصلوں میں تفصیلی وجوہات کا ذکر ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹراٹل سے پہلے حلف بھی لیا جاتا ہے، یہ حلف کورٹ میں تمام ممبران ایڈوکیٹ اور شارٹ ہینڈ والا بھی لیتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ساڑھے گیارہ بجے ایک اور کیس بھی ہے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سزا سیکشن 105 اور رولز 142 کے تحت سنائی جاتی ہے، ملزم کو سزا سنانے کے بعد کنفرمیشن کا مرحلہ آتا ہے اور کنفرمیشن سے پہلے جائزہ لیا جاتا ہے ٹرائل قانون کے مطابق ہوا یا نہیں، ملزمان کو وکیل کرنے کی اجازت دی جائے گی جبکہ پرائیویٹ وکیل کی بھی ملزمان خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے خلاف اپیل کے لیے سکیشن 133 موجود ہے، تین ماہ سے زیادہ کی سزا پر 42دن کے اندر اپیل کرسکتے ہیں، اپیل کورٹ آف اپیل میں کی جا سکتی ہے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More